Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 119 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(119)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ:اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔} یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَامراد ہیں۔ ابنِ جریج کہتے ہیں کہ اس سے مہاجرین مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی نیتیں سچی رہیں ، ان کے دل اور اَعمال سیدھے رہے اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوئہ تبو ک میں حاضر ہوئے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۲ / ۲۹۳)
سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی مذمت:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم ارشاد فرمایا،اس مناسبت سے یہاں ہم سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی مذمت پر دو اَحادیث ذکر کرتے ہیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک سچائی بھلائی کی طرف ہدایت دیتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ بدکاریوں کی طرف لے کر جاتا ہے اور بدکاریاں جہنم میں پہنچاتی ہیں اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالٰی: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴)
(2)…حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ جس شخص کو آپ نے (شبِ معراج) دیکھا کہ ا س کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں وہ بہت جھوٹا آدمی ہے، ایسی بے پرکی اڑاتا تھا کہ اس کا جھوٹ اطراف ِعالَم میں پھیل جاتا تھا، پس قیامت تک ا س کے ساتھ یہی کیا جاتا رہے گا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالٰی: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۶، الحدیث: ۶۰۹۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں :
اِس آیت سے نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا بھی ثبوت ملتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ ہونے کی ایک صورت ان کی صحبت اختیار کرنا بھی ہے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کی سیرت و کردار اور اچھے اعمال دیکھ کر خود کوبھی گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق مل جاتی ہے اور ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ دل کی سختی ختم ہو تی اور اس میں رِقَّت و نرمی محسوس ہوتی ہے،ایمان پر خاتمے اور قبر و حشر کے ہَولناک معاملات کی فکر نصیب ہوتی ہے، اس لئے ہر مسلمان کوچاہئے کہ وہ نیک بندوں سے تَعلُّقات بنائے اور ان کی صحبت اختیار کرے اور کسی کی بھی صحبت اختیار کرنے سے پہلے غور کر لے کہ وہ کس کی صحبت اختیار کر رہا ہے ،اس کی ترغیب سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۴۵-باب، ۴ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۳۸۵)
اور دیندار دوست تلاش کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہیں۔ اور کسی گناہگار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ، ۲ / ۲۱۴)
حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ پانچ قسم کے آدمیوں کی صحبت اختیار نہ کرو: (1) بہت جھوٹ بولنے والا شخص،کیونکہ تم اس سے دھوکہ کھاؤ گے ،وہ سراب (یعنی صحراء میں پانی نظر آنے والی ریت ) کی طرح ہے،وہ دور والے کو تیرے قریب کر دے گا اور قریب والے کو دور کر دے گا۔ (2) بے وقوف آدمی، کیونکہ اس سے تمہیں کچھ بھی حاصل نہ ہو گا، وہ تمہیں نفع پہنچانا چاہے گا لیکن نقصان پہنچا بیٹھے گا۔ (3) بخیل شخص، کیونکہ جب تمہیں اس کی زیادہ ضرورت ہو گی تو وہ دوستی ختم کر دے گا۔ (4) بزدل شخص، کیونکہ یہ مشکل وقت میں تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔ (5) فاسق شخص، کیونکہ وہ تمہیں ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا۔ کسی نے پوچھا کہ لقمے سے کم کیا ہے؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’لالچ رکھنا اور اسے نہ پانا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ، ۲ / ۲۱۴-۲۱۵)
یاد رہے کہ کسی کو اپنا پیرو مرشد بنانے کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی صحبت کے ذریعے اس سے فیض حاصل کیا جاسکے ۔یونہی باعمل علماء کی صحبت میں بیٹھنے کی بھی بہت فضیلت ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے:’’علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے۔(مسند الفردوس، باب المیم، ۴ / ۱۵۶، الحدیث: ۶۴۸۶)
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو چر لیا کرو ۔ عرض کی گئی، یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جنت کے باغ کیا چیز ہیں ؟ارشاد فرمایا: علم کی مَجالس۔(معجم الکبیر، باب العین، مجاہد عن ابن عباس، ۱۱ / ۷۸، الحدیث: ۱۱۱۵۸)
حضرت سہل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جو چاہتا ہے کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مجلسوں کی طرف دیکھے اسے چاہیے کہ علماء کی مجلسوں کی طرف دیکھے کہ کوئی مرد آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے فلاں (یعنی مولانا صاحب، مفتی صاحب) آپ اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے اپنی عورت کے بارے میں اس اس طرح قسم کھائی، پس وہ عالم کہتا ہے کہ اس کی عورت کو طلاق ہو گئی اور ایک دوسرا شخص آتا ہے اور کہتاہے ،آپ اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے اپنی عورت کے بارے میں ایسے ایسے قسم اٹھائی تو وہ کہتا ہے کہ وہ مرد اپنی اس بات کے ساتھ حانِث (قسم توڑنے والا) نہیں ہوا اور یہ بات کہنا (یعنی احکامِ شرع بیان کرنا)جائز نہیں مگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور علماء کے لیے۔ پس اس بات سے علماء کی شان پہچان لو۔(الفقیہ والمتفقہ، ذکر احادیث واخبار شتی یدلّ جمیعہا علی جلالۃ الفقہ والفقہاء، ۱ / ۱۴۹، روایت نمبر: ۱۳۶)
حضرت بہزبن حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو علماء کی صحبت میں بیٹھا تحقیق وہ میری صحبت میں بیٹھا اور جو میری صحبت میں بیٹھا یقینا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بیٹھا۔(کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول فی الترغیب فیہ، ۵ / ۷۴، الحدیث: ۲۸۸۷۹، الجزء العاشر)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’علماء کی مجالس سے الگ نہ رہو اس لئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے روئے زمین پر علماء کی مجالس سے مکرم کسی مٹی کوپیدا نہیں فرمایا۔(احیاء علوم الدین، کتاب ترتیب الاوراد وتفصیل احیاء اللیل، الباب الاول فی فضیلۃ الاوراد وترتیبہا واحکامہا، بیان اختلاف الاوراد باختلاف الاحوال، ۱ / ۴۶۰)
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشا د ہے: ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جن کی صورت دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے ، جن کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے، جن کا عمل تمہیں آخرت کا شوق دلائے۔(جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع فی آداب العالم والمتعلم، ص۱۷۲) اللہ تعالیٰ ہمیں نیک لوگوں کو اپنا دوست بنانے ،علم کی مجالس اور علماء کی صحبت میں بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اجماع حجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صادقین کے ساتھ رہنے کا حکم فرمایا، اس سے اُن کے قول کو قبول کرنا لازم آتا ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ص۴۵۸)
نیز اس حدیثِ پاک سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اجماع حجت ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ فَاِذَا رَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ‘‘بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہو گی،تو جب تم اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)