Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 123 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(123)
تفسیر: صراط الجنان
{قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ:ان کافروں سے جہاد کرو جو تمہارے قریب ہیں۔} جہاد تمام کافروں سے واجب ہے قریب کے ہوں یا دُور کے لیکن قریب والے مُقَدَّم ہیں پھر جواُن سے مُتّصل ہوں ایسے ہی درجہ بدرجہ ۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ص۴۶۰)
اس آیت میں کفار سے جنگ کے آداب سکھائے گئے ہیں کہ جنگ کی شرعی اجازت جب متحقق ہوجائے تو اس کی ابتدا قریب میں رہنے والے کفار سے کی جائے پھر ان کے بعد جو قریب ہوں حتّٰی کہ مسلمان مجاہدین دور کی آبادیوں میں رہنے والے کفار تک پہنچ جائیں۔ اسی طریقے سے تمام کفار سے جہاد ممکن ہے ورنہ ایک ہی بار سب سے جنگ کرنا مُتَصَوَّر نہیں ،یہی وجہ ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہلے اپنی قوم سے جہاد فرمایا ،پھر پورے عرب سے ، پھر اہلِ کتاب سے اور ان کے بعد روم اور شام والوں سے جنگ کی۔ پھر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عراق اور پھر تمام شہروں تک جنگ کا دائرہ وسیع کیا۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۳ / ۸۴۹)
{وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً:اور وہ تم میں سختی پائیں۔}اس سختی میں جرأت و بہادری، قتال پر صبر اور قتل یا قید کرنے میں شدت وغیرہ ہر قسم کی مضبوطی و سختی داخل ہے۔ (روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۶ / ۶۸) جو کفار اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں ان سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا حکم ہے ، یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہر وقت سختی ہی کرتے رہیں کیونکہ ہمیں تو دورانِ جہاد بھی عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور پادریوں وغیرہ کو قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
{وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ:اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔}اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کا جہاد اور کفار کو قتل کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کی وجہ سے ہو نہ کہ مال و دولت یا منصب ومرتبے کے حصول کی غرض سے ہو۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۶ / ۱۷۴)