Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 13 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُـوْۤا اَیْمَانَهُمْ وَ هَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ هُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍؕ-اَتَخْشَوْنَهُمْۚ-فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(13)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا:کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے۔} ارشاد فرمایا کہ کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور صلح حدیبیہ کا عہد توڑا اور مسلمانوں کے حلیف خزاعہ کے مقابل بنی بکر کی مدد کی اور دارُالنَّدوَہ میں مشورہ کرکے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مکہ مکرمہ سے نکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے ہی تم سے لڑائی کی ابتداء کی تھی تو کیا تم ان سے ڈرتے ہو اور ا س بنا پر ان سے جنگ ترک کرتے ہو؟ پس اگر تم اللہ تعالیٰ کے وعدے اور وعید پر ایمان رکھتے ہو تواللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم کافروں سے جنگ ترک کرنے کے معاملے میں اس سے ڈرو۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۲۲۰)
اس سے معلوم ہوا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین و ایذاء، مسلمانوں سے عہد شکنی اور شروفساد کی ابتداء کرنا کفار کی وہ غلطی ہے جس کی سزا انہیں ملنی چاہیے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو اکہ ایمانِ کامل کا تقاضا یہ ہے کہ مومن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی سے ڈرے اور نہ ا س کے علاوہ کسی کی پرواہ کرے۔
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ منصبِ رسالت پر فائز ہستیوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
’’اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَ یَخْشَوْنَهٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا‘‘ (احزاب:۳۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں کرتے اور اللہ کافی حساب لینے والاہے۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَهٗ ۪-فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘ (ال عمران:۱۷۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک وہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔