Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 22 ≫ Translation ≫ Tafsir
یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ(21)خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(22)
تفسیر: صراط الجنان
{ یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ:ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور باغوں کی بشارت دیتا ہے۔} علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ اعلیٰ ترین بشارت ہے کیونکہ مالک کی رحمت و رضا بندے کا سب سے بڑا مقصد اور پیاری مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۲ / ۲۲۴)
راہِ خدا میں جہا د کرنے والے مسلمانوں کے لئے بڑی پیاری تین بشارتیں :
اِس آیت میں ایمان قبول کرنے کے بعد ہجرت کرنے اور اپنی جان و مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے تین بڑی پیاری بشارتیں جمع کی گئی ہیں۔
(1، 2)… انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رضا نصیب ہو گی۔حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا تلاش کرتا رہتا ہے، وہ اسی جُستجو میں رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرماتا ہے’’ میرا فلاں بندہ مجھے راضی کرنا چاہتا ہے ، آگاہ رہو کہ اس پر میری رحمت ہے۔ تب حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کہتے ہیں : فلاں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، یہ ہی بات عرش اٹھانے والے فرشتے کہتے ہیں ،یہ ہی ان کے اردگرد کے فرشتے کہتے ہیں حتّٰی کہ ساتویں آسمان والے یہ کہنے لگتے ہیں ،پھر یہ رحمت اس کے لیے زمین پر نازل ہوتی ہے ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، ومن حدیث ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ، ۸ / ۳۲۸، الحدیث: ۲۲۴۶۴)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ بے شک اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے ارشاد فرمائے گا ’’اے اہلِ جنت!وہ عرض کریں گے :اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم حاضر اور مُستَعِد ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’کیا تم راضی ہو؟ جنتی عرض کریں گے :ہم کیوں نہ راضی ہوتے جبکہ تو نے ہمیں وہ عطا فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز عطا فرمانے والا ہوں۔ جنتی عرض کریں گے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، کون سی چیز اس سے افضل ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ میں نے اپنی رضامندی کو تمہارے لئے حلال کر دیا لہٰذا اس کے بعد تم پر کبھی ناراضگی نہیں ہو گی۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۰، الحدیث: ۶۵۴۹)
(3)… وہ جنت میں ہمیشہ کے لئے قیام کریں گے۔ جہنم سے بچائے جانے اور جنت میں داخل کئے جانے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘ (اٰل عمران:۱۸۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
{خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا:وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے ۔} یہ آیتِ کریمہ بَظاہر مہاجرین صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے لئے ہے، ان بزرگوں کا جنتی ہونا یقینی ہے۔ ان میں سے بعض کا تو نام لے کر جنتی ہونے کا اعلان فرما دیا گیا جیسے حضرات عَشرہ مُبَشَّرہ وغیرہم۔معلوم ہوا کہ صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی وہ عظمت ہے کہ ان کیلئے رحمت ، جنت ور رضائے الٰہی کی بشارتیں بطورِ خاص قرآنِ پاک میں دی گئی ہیں ، لہٰذا جو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ایمان یا تقویٰ کا انکار کرے وہ اس آیت کا منکر ہے۔