Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 28 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَاۚ-وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(28)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ:مشرک بالکل ناپاک ہیں۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مشرک بالکل ناپاک ہیں یعنی ان کو باطن کے اعتبار سے ناپاک قرار دیا ہے کہ وہ کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں۔ حکم دیا گیا کہ اِس سال یعنی سَن 9ہجری کے بعد وہ مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں نہ حج کے لئے نہ عمرہ کے لئے ۔
یہاں مشرکین کو منع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان مسجدِ حرام شریف میں آنے سے روکیں۔یہاں اصلِ حکم مسجد ِ حرام شریف میں آنے سے روکنے کا ہے اور بقیہ دنیا بھر کی مساجد میں آنے کے متعلق بھی حکم یہ ہے کہ کفار مسجدوں میں نہیں آسکتے ۔ خصوصاً کفار کو عزت و احترام اور استقبال کے ساتھ مسجد میں لانا شدید حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ یہ کہنا کہ مسجدُ الحرام شریف سے کفار کا منع ایک خاص وقت کے واسطے تھا ،اگر یہ مراد کہ اب نہ رہا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر صَریح اِفتراء ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا‘‘
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔)
یونہی یہ کہنا کہ کفار کے وُفود مسجدِ نبوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اپنے طریقے پر عبادت کرتے تھے محض جھوٹ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے مسجدِ کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا کسی کافر کی حاضری مَعَاذَاللہ بطورِاِستیلا واِستِعلاء (یعنی غلبے کے طور پر) نہ تھی بلکہ ذلیل وخوار ہوکر یا اسلام لانے کے لئے یا تبلیغِ اسلام سننے کے واسطے تھی ۔ (فتاویٰ رضویہ،کتاب السیر، ۱۴ / ۳۹۰-۳۹۱)
{وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً:اور اگرتمہیں محتاجی کا ڈر ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے کہ مشرکین کو حج سے روک دینے سے تجارتوں کو نقصان پہنچے گا اور اہلِ مکہ کو تنگی پیش آئے گی تو عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے فضل سے اگر چاہے گا تو تمہیں دولت مند کردے گا ۔ حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ نے انہیں غنی کردیا، بارشیں خوب ہوئیں اور پیداوار کثرت سے ہوئی۔ مقاتل نے کہا کہ یمن کے لوگ مسلمان ہوئے اور انہوں نے اہلِ مکہ پر اپنی کثیر دولتیں خرچ کیں۔ ’’اگرچاہے‘‘ فرمانے میں تعلیم ہے کہ بندے کو چاہئے کہ طلب ِخیر اور دفعِ آفات کے لئے ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ رہے اور تمام اُمور کو اسی کی مَشِیَّت سے متعلق جانے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۲ / ۲۲۹) اسی آیت پر مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یعنی یہ نہ سمجھو کہ اگر حج میں کفار شریک نہ ہوئے تو تمہاری تجارتیں نہ چلیں گی (بلکہ) اللہ (عَزَّوَجَلَّ) مسلمانوں کی جماعت میں اتنی برکت دے گا کہ مسلمان حاجیوں سے اہلِ مکہ کے تمام کاروبار چلیں گے۔ رب (عَزَّوَجَلَّ) نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا جو آج تک دیکھا جا رہا ہے۔’’ اگر چاہے‘‘ اس لئے فرمایا کہ مسلمانوں کا توکل اللہ (عَزَّوَجَلَّ) پر رہے نہ کہ آنے والے حاجیوں پر۔ (نور العرفان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۳۰۴)