banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 32 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(32)هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(33)

ترجمہ: کنزالایمان چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ نہ مانے گا مگر اپنے نور کا پورا کرنا پڑے برا مانیں کافر۔ وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے برا مانیں مشرک ۔ ترجمہ: کنزالعرفان یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہ مانے گا اگرچہ کافر ناپسند کریں ۔ وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک ناپسند کریں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں۔} اس آیت میں نور سے مراددینِ اسلام یا سرکار ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل ہیں اور نور بجھانے سے مراد حضورپُرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین مٹانا ہے یا قرآن کو شائع نہ ہونے دینا یا حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر روکنا اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل سے چڑجانا ۔ تو فرما دیا کہ کفار کی حرکتوں سے نہ دین ختم ہوگا، نہ اسلام کی شوکت میں کمی آئے اور نہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں فرق آئے گا۔(بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۴۱-۱۴۲، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۱۶، ملتقطاً)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں:

مِٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے

نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے

جب  بڑھائے  تجھے   اللہ تعالیٰ  تیرا

آیت’’هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :

(1)… سچا دین اور ہدایت حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایسے وابستہ ہیں جیسے آفتاب کے ساتھ روشنی کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چھوڑ کر نہ ہدایت ملتی ہے نہ سچا دین ، اگر صرف قرآن سے ہدایت مل جاتی تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کودنیا میں کیوں بھیجا جاتا۔

(2)… حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی ہدایت اور سچے دین سے الگ نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بھیجے گئے ہیں جو انہیں ایک آن کے لئے بھی ہدایت سے الگ مانے وہ بے دین ہے۔

{ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ:تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے۔} قرآنِ پاک میں یہ مضمون اس آیت کے علاوہ سورۂ فتح کی آیت نمبر 28 اور سورۂ صف کی آیت نمبر 9 میں بھی بیان ہوا ہے۔ آیت میں غلبے سے دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے غلبہ مراد ہے۔ دلائل کے اعتبار سے تو یوں کہ دینِ اسلام نے اپنی حقانیت پر جو دلائل پیش کئے ہیں اس سے مضبوط ترین دلائل کوئی بھی پیش نہ کر سکا اور جہاں تک قوت کے اعتبار سے غلبہ کاتعلق ہے تو اس مراد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بہت بڑا عرصہ ایسا گزرا ہے کہ د نیا میں صرف دینِ اسلام ہی غالب تھا اور اب آئندہ اس کا کامل ظہور اس وقت ہو گا جب حضرت امام مہدی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دنیا میں تشریف لائیں گے۔