banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 83 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىٕفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَاْذَنُوْكَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ اَبَدًا وَّ لَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّاؕ-اِنَّكُمْ رَضِیْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِیْنَ(83)

ترجمہ: کنزالایمان پھر اے محبوب اگر اللہ تمہیں ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد کو نکلنے کی اجازت مانگیں تو تم فرمانا تم کبھی میرے ساتھ نہ چلو اور ہرگز میرے ساتھ کسی دشمن سے نہ لڑو تم نے پہلی دفعہ بیٹھ رہنا پسند کیا تو بیٹھ رہو پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ۔ ترجمہ: کنزالعرفان پھر اے حبیب! اگر اللہ تمہیں ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد میں ساتھ نکلنے کی اجازت مانگیں تو تم فرمادینا کہ تم کبھی بھی میرے ساتھ نہ چلو اور ہرگز میرے ساتھ کسی دشمن سے نہ لڑو۔ تم نے پہلی دفعہ بیٹھے رہنے کو پسند کیا تو (اب) پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھ رہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىٕفَةٍ مِّنْهُمْ:پھر اے محبوب! اگر اللہ تمہیں ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب جو آپ غزوۂ تبوک سے واپس مدینہ منورہ پہنچیں گے تو منافقین دھوکہ دہی کے لئے کہیں گے کہ حضور ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم کو اجازت دیں کہ آئندہ جہاد میں آپ کے ہمراہ چلیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۲۶۷) اس میں غیبی خبر ہے کہ وہ ایسا کہیں گے ۔

{فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِیْنَ:تو (اب) پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھ رہو۔} یعنی اب اگر منافقین جہاد میں ساتھ چلنے کی اجازت مانگیں تو ان سے فرما دو کہ اب تم ہرگز کبھی بھی میرے ساتھ نہ چلو اور نہ ہی میرے ساتھ کسی دشمن سے لڑو۔ تم نے پہلی دفعہ جہاد سے پیچھے بیٹھے رہنے کو پسند کیا تو اب بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو یعنی عورتوں بچوں بیماروں اور اپاہجوں کے ساتھ بیٹھ رہو۔

صُلح کُلِّیَّت حکمِ قرآن کے خلاف ہے:

           اس سے ثابت ہوا کہ جس شخص سے دھوکہ اور فریب ظاہر ہو اس سے تعلق ختم کر دینا اور علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے اور محض اسلام کے مُدّعی ہونے سے کسی کو ساتھ ملالینے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ منافقین کے جہاد میں جانے کو منع فرمایا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۲۶۷)

            آج جو لوگ کہتے ہیں کہ ہر کلمہ گو کو ملالو اور اس کے ساتھ اتفاق و اتحاد کرو یہ اس حکمِ قرآنی کے بالکل خلاف ہے۔ اس حکم میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر مومنوں کے ساتھ منافقوں کو بھی کسی اہم مہم میں شامل کرلیا جائے تو وہ مسلمانوں کے دلوں میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، جیسے بہادروں کے ساتھ اگر بزدلوں کو بھی کسی مہم میں بھیج دیا جائے تو وہ بزدل اپنی حرکتوں سے بہادروں کے بھی قدموں میں لغزش پیدا کردیں گے۔