banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 95 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْؕ-فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْؕ-اِنَّهُمْ رِجْسٌ٘-وَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(95)

ترجمہ: کنزالایمان اب تمہارے آگے اللہ کی قسم کھائیں گے جب تم ان کی طرف پلٹ کر جاؤ گے اس لیے کہ تم ان کے خیال میں نہ پڑو تو ہاں تم ان کا خیال چھوڑو وہ تو نرے پلید ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے بدلہ اس کا جو کماتے تھے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اب جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو یہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو تو تم ان سے اعراض ہی کرو۔ یہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ: اب تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ اپنے اس سفر سے واپس ہو کر مدینہ طیبہ میں ، غزوے میں شرکت نہ کرنے والے منافقین کی طرف لوٹ کر جائیں گے تو یہ آپ کے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ آپ ان سے درگزر کریں اور پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان پر ملامت و عتاب نہ کریں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ۲ / ۲۷۳)

             اس سے معلوم ہوا کہ منافق و گمراہ زیادہ قسمیں کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ! مومنوں کو اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔

{فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْ:تو تم ان سے اعراض ہی کرو۔} بعض مفسرین نے فرمایا :’’اس سے مراد یہ ہے کہ اُن کے ساتھ بیٹھنا اور ان سے بولنا ترک کردو۔ چنانچہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ منافقین کے پاس بیٹھیں ، نہ اُن سے بات کریں کیونکہ اُن کے باطن خبیث اور اعمال برے ہیں اور ملامت و عتاب سے ان کی اصلاح نہ ہوگی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ناپاک ہیں اور ان کے پاک ہونے کا کوئی طریقہ نہیں ، آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ ان کے دنیا میں کیے ہوئے خبیث  اعمال کا بدلہ ہے۔ شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ یہ آیت جد بن قیس ، معتب بن قشیر اور ان دونوں کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ 80 منافق تھے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ان کے پاس بیٹھو ،نہ ان سے کلام کرو۔ مقاتل نے کہا کہ یہ آیت عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی، اس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے سامنے قسم کھائی تھی کہ اب کبھی وہ جہاد میں جانے سے سستی نہ کرے گا اور سیدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے درخواست کی تھی کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سے راضی ہوجائیں ، اس پر یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ۲ / ۲۷۳، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۴۵۰، ملتقطاً)