banner image

Home ur Surah Al Waqiah ayat 82 Translation Tafsir

اَلْوَاقِعَة

Al Waqiah

HR Background

اَفَبِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ(81)وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ(82)

ترجمہ: کنزالایمان تو کیا اس بات میں تم سستی کرتے ہو ۔ اور اپنا حصّہ یہ رکھتے ہو کہ جھٹلاتے ہو ۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو کیا تم اس بات میں سستی کرتے ہو؟ اور تم اپنا حصہ یہ بناتے ہو کہ تم جھٹلاتے رہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَبِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ: تو کیا تم اس بات میں  سستی کرتے ہو؟} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ اے اہلِ مکہ ! تو کیا تم اللہ تعالیٰ کے اس کلام کی تصدیق کرنے کی بجائے اس کا انکار کرتے ہو اور ا س انکار کو معمولی سمجھتے ہو اور تم نے اس عظیم نعمت کا شکر کرنے کی بجائے قرآن کو جھٹلانا ہی اپنا حصہ قرار دے رکھا ہے۔تفسیر خازن میں  ہے،حضرت حسن  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’وہ بندہ بڑابد نصیب ہے جس کا حصہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو جھٹلانا ہو ۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۴ / ۲۲۴)

            بعض مفسرین نے اس آیت ’’وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ‘‘ کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں : اللہ تعالیٰ نے تمہیں  جو نعمتیں  عطا کی ہیں  تم نے ان کا شکر کرنے کی بجائے انہیں  جھٹلانا اپنا حصہ بنا رکھا ہے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۴ / ۲۲۴اور جھٹلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ نعمت ملنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے اَسباب کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔

             حضرت زید بن خالد جہنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حُدَیْبیہ کے مقام پر بارش والی رات میں  ہمیں  صبح کی نماز پڑھائی، جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فارغ ہوئے تو لوگوں  کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا ہے؟لوگ عرض گزار ہوئے: اللہ تعالیٰ اور ا س کا رسول بہتر جانتے ہیں ’’ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میرے بندوں  نے صبح کی تو کچھ مجھ پر ایمان رکھنے والے اور کچھ منکر تھے،بہرحال جس نے کہا:اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش برسائی گئی تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں  کا منکر ہے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں  فلاں  ستارے نے بارش برسائی ہے تو وہ میرا منکر اور ستاروں  پر یقین رکھنے والاہے۔( بخاری، کتاب الاذان، باب یستقبل الامام الناس اذا سلّم، ۱ / ۲۹۵، الحدیث:۸۴۶)