banner image

Home ur Surah Al Yusuf ayat 3 Translation Tafsir

يُوْسُف

Yusuf

HR Background

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ ﳓ وَ اِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ(3)

ترجمہ: کنزالایمان ہم تمہیں سب سے اچھا بیان سناتے ہیں اس لیے کہ ہم نے تمہاری طرف اس قرآن کی وحی بھیجی اگرچہ بیشک اس سے پہلے تمہیں خبر نہ تھی۔ ترجمہ: کنزالعرفان ہم نے تمہاری طرف اس قرآن کی وحی بھیجی اس کے ذریعے ہم تمہارے سامنے سب سے اچھا واقعہ بیان کرتے ہیں اگرچہ اس سے پہلے تم یقینا اس سے بے خبر تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ:ہم تمہارے سامنے سب سے اچھا واقعہ بیان کرتے ہیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم آپ کے سامنے سابقہ امتوں اور گزشتہ زمانوں کا سب سے اچھا واقعہ بیان کرتے ہیں جو کہ بہت سی عجیب و غریب حکمتوں اور عبرتوں پر مشتمل ہے اور اس میں دین و دنیا کے بہت فوائد ، بادشاہوں ، رعایا اور علماء کے اَحوال، عورتو ں کی عادات، دشمنوں کی ایذاؤں پر صبر اور ان پر قابو پانے کے بعد ان سے درگزر کرنے کا نفیس بیان ہے جس سے سننے والے میں نیک سیرتی اور پاکیزہ خصلتیں پیدا ہوتی ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲-۳ )نیز اس سورت کے ضمن میں ایک انسان کی زندگی کے جملہ مراحل کو بیان کردیا گیا کہ زندگی کے کن مراحل پر کیا کیا چیزیں انسان کو پیش آسکتی ہیں اور ان سے وہ بہترین انداز میں سبکدوش کیسے ہوسکتا ہے۔

{وَ اِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ:اگرچہ اس سے پہلے تم یقینا اس سے بے خبر تھے۔}یعنی یہ سورت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طر ف وحی کرنے سے پہلے آپ کو اس واقعے کی خبر تھی اور نہ آپ نے اس واقعے کو کبھی سنا تھا۔( ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۷۸)

           علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ’’یہ تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک معجزہ ہے کہ آپ نے سب سے اچھے انداز اور بہترین طریقے سے گزشتہ اور آئندہ لوگوں کی خبر دی ہے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۹۴۱)

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘فرمانے کی وجوہات:

            حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘ فرمانے کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 3 وجوہات درج ذیل ہیں۔

(1)…حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں جس قدر عبرتیں اور حکمتیں بیان کی گئی ہیں اتنی اور کسی سورت میں بیان نہیں کی گئیں۔

(2)…حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اپنے بھائیوں سے انتہائی اچھا سلوک فرمانے ،ان کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرنے اور بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود انہیں معاف کر دینے کی وجہ سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘فرمایا گیا۔

(3)… حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں انبیاءِ کرام، صالحین، فرشتوں ، شیطانوں ، جنوں ، انسانوں ، جانوروں اور پرندوں کا ذکر ہے اور اس میں بادشاہوں ، تاجروں ، عالموں ، جاہلوں ، مَردوں اور عورتوں کے طرزِ زندگی کا بیان اور عورتوں کے مکر وفریب کا ذکر ہے، اس کے علاوہ اس واقعے میں توحید، رسالت، فقہی اَحکام، خوابوں کی تعبیر، سیاست، مُعاشرت، تدبیرِمَعاش اور ان تمام فوائد کا بیان ہے جن سے دین و دنیا کی اصلاح ممکن ہے ،اس لئے اس واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘فرمایا گیا۔ (تفسیرقرطبی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۸۳، الجزء التاسع)