banner image

Home ur Surah Alam Nashrah ayat 3 Translation Tafsir

اَلَمْ نَشْرَ ح

Alam Nashrah

HR Background

وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ(2)الَّذِیْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ(3)

ترجمہ: کنزالایمان اور تم پر سے تمہارا وہ بوجھ اتار لیا۔ جس نے تمہاری پیٹھ توڑی تھی ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ہم نے تمہارے اوپر سے تمہارا بوجھ اتاردیا۔ جس نے تمہاری پیٹھ توڑی تھی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ: اور ہم نے تمہارے اوپر سے تمہارا بوجھ اتاردیا۔ } اس بوجھ سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں  مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے وہ غم مراد ہے جوحضور پُر نور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے رہتا تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس بوجھ سے اُمت کے گناہوں  کا غم مراد ہے جس میں  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا قلب مبارک مشغول رہتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، ہم نے آپ کو شفاعت قبول کئے جانے والا بناکر غم کاوہ بوجھ دور کردیا جس نے آپ کی پیٹھ توڑدی تھی۔( تفسیر کبیر ، الم نشرح ، تحت الآیۃ ، ۲-۳ ، ۱۱ / ۲۰۷-۲۰۸ ، خازن، الم نشرح، تحت الآیۃ، ۲-۳، ۴ / ۳۸۸-۳۸۹، خزائن العرفان، الم نشرح، تحت الآیۃ: ۳، ص ۱۱۱۰، ملتقطاً)

حضورِ اَقدس صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا غمِ اُمّت:

            کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کوکتنا غم ہوتا تھا اِس کا اندازہ اُس آیت سے لگایا جا سکتا ہے جس میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے ارشاد فرمایا:

’’ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا ‘‘(کہف:۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں  تو ہوسکتا ہے کہ تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کردو۔

            اور امت کے بارے میں  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا کیا حال تھا اِس کا اندازہ اس آیت سے لگایاجا سکتا ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:  ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ‘‘(توبہ:۱۲۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں  سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں  پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مسلمانوں  پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔

            اور ا س حدیث سے بھی ا س کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے قرآنِ پاک میں  سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس قول کی تلاوت فرمائی:

’’ رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘(ابراہیم:۳۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! بیشک بتوں  نے بہت سے لوگوں  کو گمراہ کردیا تو جو میرے پیچھے چلے تو بیشک وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے۔

            اور وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں  حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہ قول ہے:

’’ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ‘‘(المائدہ:۱۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تو انہیں  عذاب دے تو وہ تیرےبندے ہیں اور اگر تو انہیں  بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے والا،حکمت والا ہے۔

            تو حضور پُر نور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر گریہ طاری ہو گیا اور اپنے دستِ اَقدس اٹھا کر دعا کی ’’اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ ، میری امت ،میری امت۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبریل سے فرمایا’’ اے جبریل !،میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں جاؤ، تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے مگر ان سے پوچھو کہ انہیں  کیا چیز رُلارہی ہے ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوئے اور پوچھا تو انہیں  رسول اللّٰہ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنی عرض معروض کی خبر دی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبریل سے فرمایا :تم میرے حبیب  صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ’’اِنَّا سَنُرْضِیْکَ فِی اُمَّتِکَ وَلَا نَسُوْ ءُکَ‘‘ آپ کی امت کی بخشش کے معاملے میں  ہم آپ کو راضی کر دیں  گے اور آپ کو غمگین نہ کریں  گے ۔( مسلم، کتاب الایمان، باب دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لامّتہ... الخ، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲))

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ جانِ برادر!تو نے کبھی سنا ہے کہ جس کو تجھ سے اُلفت ِصادقہ ہے وہ تیری اچھی بات سن کر چیں  بہ جبیں (یعنی ناراض ) ہو اوراس کی مَحو(یعنی ختم کرنے) کی فکر میں  رہے اورپھر محبوب بھی کیسا،جانِ ایمان وکانِ احسان،جس کے جمالِ جہاں  آراء کا نظیر کہیں  نہ ملے گا اور خامۂ قدرت (یعنی تقدیر کے قلم )نے اس کی تصویر بناکر ہاتھ کھینچ لیا کہ پھر کبھی ایسا نہ لکھے گا، کیسا محبوب، جسے اس کے مالک نے تمام جہان کے لئے رحمت بھیجا، کیسا محبوب، جس نے اپنے تن پر ایک عالَم کا بار اٹھالیا ، کیسا محبوب ، جس نے تمہارے غم میں  دن کاکھانا ، رات کا سونا ترک کردیا، تم رات دن اس کی نافرمانیوں  میں  مُنہَمِک اورلَہْو ولَعب میں  مشغول ہو اوروہ تمہاری بخشش کے لئے شب وروز گِریاں  ومَلول ۔

            شب، کہ اللّٰہ جَلَّ جَلَالُہٗ نے آسائش کے لئے بنائی، اپنے تسکین بخش پر دے چھوڑے ہوئے مَوقوف ہے ، صبح قریب ہے ، ٹھنڈی نسیموں  کا پنکھا ہو رہا ہے ، ہر ایک کاجی اس وقت آرام کی طرف جھکتاہے ، بادشاہ اپنے گرم بستروں  ، نرم تکیوں  میں  مست خواب ناز ہے اورجو محتاج بے نوا ہے اس کے بھی پاؤں  دوگز کی کملی(چادر) میں  دراز، ایسے سہانے وقت ، ٹھنڈے زمانہ میں  ، وہ معصوم ، بے گناہ، پاک داماں  ، عصمت پناہ اپنی راحت وآسائش کو چھوڑ، خواب وآرام سے منہ موڑ ، جبینِ نیازآستانۂ عزت پر رکھے ہے کہ الٰہی!میری امت سیاہ کارہے ، درگزرفرما، اوران کے تمام جسموں  کو آتشِ دوزخ سے بچا۔

            جب وہ جانِ راحت کانِ رأفتپیداہوا،بارگاہِ الٰہی میں  سجدہ کیا اور رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ فرمایا، جب قبر شریف میں  اتارا لبِ جاں  بخش کو جنبش تھی، بعض صحابہ نے کان لگا کر سنا، آہستہ آہستہ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ فرماتے تھے ۔ قیامت کے روز کہ عجب سختی کا دن ہے ، تانبے کی زمین ، ننگے پاؤں ، زبانیں  پیاس سے ، باہر ، آفتاب سروں  پر ، سائے کا پتہ نہیں  ، حساب کا دغدغہ ، ملکِ قہار کا سامنا ،عالَم اپنی فکر میں  گرفتارہوگا ، مجرمانِ بے یار دامِ آفت کے گرفتار، جدھر جائیں  گے سوا نَفْسِیْ نَفْسِیْ اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ کچھ جواب نہ پائیں  گے۔اس وقت یہی محبوبِ غمگسار کام آئے گا ، قفلِ شفاعت اس کے زورِ بازو سے کھل جائے گا ، عمامہ سرِاَقدس سے اتاریں  گے اورسربسجود ہو کر ’’یَا رَبِّ اُمَّتِیْ‘‘ فرمائیں  گے ۔(تو ایسے محبوب، غم خوار اور غمگسار آقا کی سچی فضیلتوں  کو مٹانا اور دن رات ان کے اوصاف کی نفی کی فکر میں  رہنااور ان کی اطاعت سے منہ موڑنا اور ان کی نافرمانی پر کمر بستہ ہونا کتنی بڑی ناانصافی ہے)۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۷۱۶-۷۱۷)