Home ≫ ur ≫ Surah An Naba ≫ ayat 20 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَّ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا(19)وَّ سُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًاﭤ(20)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ فُتِحَتِ السَّمَآءُ: اور آسمان کھول دیا جائے گا۔ } یعنی قیامت کے دن آسمان کھول دیا جائے گا تو وہ کثیر دروازوں والا ہوجائے گااوراس میں ایسے راستے بن جائیں گے جن سے فرشتے اُتریں گے۔( روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱۰ / ۳۰۰-۳۰۱، خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۳۴۷)
اسی بات کو صراحت کے ساتھ ایک اور مقام پر بیان کیا گیا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ
’’وَ یَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ وَ نُزِّلَ الْمَلٰٓىٕكَةُ تَنْزِیْلًا‘‘(فرقان:۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جس دن آسمان بادلوں سمیت پھٹ جائے گا اور فرشتے پوری طرح اتارے جائیں گے۔
{وَ سُیِّرَتِ الْجِبَالُ: اور پہاڑ چلائے جائیں گے۔} قرآنِ پاک میں مختلف مقامات پر قیامت کے دن پہاڑوں کی مختلف حالتیں بیان کی گئیں ہیں ۔
ٍٍ پہلی حالت:پہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ کر چورا چورا کر دیا جائے گا۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’وّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً ‘‘(حاقہ:۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک دم چورا چوراکردئیے جائیں گے۔
دوسری حالت: پہاڑ دُھنکی ہوئی رنگ برنگی اُون کی طرح ہو جائیں گے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ‘‘(القارعہ:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور پہاڑ رنگ برنگی دھنکی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے۔
تیسری حالت:پہاڑ بکھرے ہوئے غبار کی طرح ہو جائیں گے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّاۙ(۵) فَكَانَتْ هَبَآءً مُّنْۢبَثًّا‘‘(واقعہ:۵،۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور پہاڑ خوب چُورا چُورا کر دیئے جائیں گے ۔ تووہ ہوا میں بکھرے ہوئے غبار جیسے ہوجائیں گے۔
چوتھی حالت: غبار بنا کر پہاڑوں کو اڑا دیا جائے گا،ارشاد فرمایا: ’’وَ اِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ‘‘(مرسلات:۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب پہاڑ غبار بناکے اڑا دئیےجا ئیں گے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًا‘‘(طہ:۱۰۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ سے پہاڑوں کے بارےمیں سوال کرتے ہیں ۔تم فرماؤ! انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔
پانچویں حالت:غبار بن کر اڑنے کے بعد پہاڑ تیزی سے چل رہے ہوں گے لیکن دیکھنے میں ٹھہرے ہوئے لگیں گے۔ارشاد فرمایاکہ ’’وَ تَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا‘‘(طور:۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور پہاڑ تیزی سے چلیں گے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’ وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ‘‘(نمل:۸۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تو پہاڑوں کو دیکھے گا انہیں جمے ہوئے خیال کرے گا حالانکہ وہ بادل کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔
چھٹی حالت: جب پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ دیکھنے والے کی نظر میں ایسے ہوجائیں گے جیسے باریک چمکتی ہوئی ریت جسے دور سے دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے پانی ہے حالانکہ وہ پانی نہیں ہوتی ۔( تفسیرکبیر، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۰، ۱۱ / ۱۳-۱۴، ملخصاً)