banner image

Home ur Surah An Nahl ayat 106 Translation Tafsir

اَلنَّحْل

An Nahl

HR Background

مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰـكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(106)

ترجمہ: کنزالایمان جو ایمان لا کر اللہ کا منکر ہو سوا اس کے جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو ہاں وہ جو دل کھول کر کافر ہو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑاعذاب ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان جو ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے سوائے اس آدمی کے جسے (کفرپر) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پرجما ہوا ہولیکن وہ جو دل کھول کر کافر ہوں ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖ:جو ایمان لانے کے بعد اللّٰہ کے ساتھ کفر کرے۔} شانِ نزول :یہ آیت حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں  نازل ہوئی۔ حضرت عمار، ان کے والد حضرت یاسر ، ان کی والدہ حضرت سمیہ، حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت خباب اور حضرت سالم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو پکڑ کر کفار نے سخت سخت ایذائیں  دیں  تاکہ وہ اسلام سے پھر جائیں  (لیکن یہ حضرات اسلام سے نہ پھرے تو) کفار نے حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے والدین کو بڑی بے رحمی سے شہیدکر دیا۔ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (ضعیف تھے جس کی وجہ سے بھاگ نہیں  سکتے تھے، انہوں ) نے مجبور ہو کر جب دیکھا کہ جان پر بن گئی تو بادلِ نخواستہ کلمۂ  کفر کا تَلَفُّظ کردیا ۔ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر دی گئی کہ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کافر ہوگئے توآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ہرگز نہیں  ، حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سر سے پاؤں  تک ایمان سے پُر ہیں  اور اس کے گوشت اور خون میں  ذوقِ ایمانی سرایت کرگیا ہے۔ پھر حضرت عماررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روتے ہوئے خدمتِ اقدس میں  حاضر ہوئے تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کیا ہوا؟ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اے خدا کے رسول! بہت ہی برا ہوا اور بہت ہی برے کلمے میری زبان پر جاری ہوئے۔ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس وقت تیرے دل کا کیا حال تھا؟ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی ’’دل ایمان پر خوب جما ہوا تھا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شفقت و رحمت فرمائی اور فرمایا کہ اگر پھر ایسا اتفاق ہو تو یہی کرنا چاہیے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۳ / ۱۴۴ملخصاً)

حالتِ اِکراہ میں  کلمۂ کفر کہنے سے متعلق 4 شرعی مسائل:

(1)…اس آیت سے معلوم ہوا کہ حالت ِاکراہ میں  اگر دل ایمان پر جما ہوا ہو تو کلمۂ کفر کا زبان پر جاری کرنا جائز ہے جب کہ آدمی کو (کسی ظالم کی طرف سے) اپنی جان یا کسی عُضْوْ کے تَلف ہونے کا (حقیقی) خوف ہو ۔(اور اس میں  یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کوئی دو معنی والی بات کہنے میں  گزارا چل سکتا ہو جس سے کفار اپنی مراد لیں  اور کہنے والا اس کی درست مراد لے تو ضروری ہے کہ ایسی دو معنی والی بات ہی کہے جبکہ اس طرح کہنا جانتا ہو۔ )۔

(2)… اگر اس حالت میں  بھی صبر کرے اور قتل کر ڈالا جائے تو اسے اجر ملے گا اور وہ شہید ہوگا جیسا کہ حضرت خُبَیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صبر کیا اور وہ سولی پر چڑھا کر شہید کر ڈالے گئے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں سیّدُ الشُّہداء فرمایا ۔

(3)… جس شخص کو مجبور کیا جائے اگر اس کا دل ایمان پر جما ہوا نہ ہو تو وہ کلمۂ کفر زبان پر لانے سے کافر ہوجائے گا ۔

(4)… اگر کوئی شخص بغیر مجبوری کے مذاق کے طور پر یا علم نہ ہونے کی وجہ سے کلمۂ  کفر زبان پر جاری کرے وہ کافر ہوجائے گا(تفسیرات احمدیہ، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ص۵۰۱)۔([1])


[1] ۔۔۔کفریہ کلمات سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کیلئے امیر ِاہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ’’کفریہ کلمات کے بارے میں  سوال جواب‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ ضرور فرمائیں۔