Home ≫ ur ≫ Surah An Nahl ≫ ayat 116 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَﭤ(116)مَتَاعٌ قَلِیْلٌ۪-وَّ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(117)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَقُوْلُوْا:اور نہ کہو۔} زمانۂ جاہلیت کے لوگ اپنی طرف سے بعض چیزوں کو حلال ، بعض چیزوں کو حرام کرلیا کرتے تھے اور اس کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کردیا کرتے تھے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۳ / ۱۴۸) اس آیت میں اس کی ممانعت فرمائی گئی اور اس کو اللّٰہ تعالیٰ پر اِفترا فرمایا گیا اور افترا کرنے والوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ بیشک جو اللّٰہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہ ہوں گے۔
اپنی طرف سے کسی چیز کو شرعاً حرام کہنا اللّٰہ تعالیٰ پر اِفترا ہے:
آج کل بھی جو لوگ اپنی طرف سے حلال چیزوں کو حرام بتادیتے ہیں جیسے میلاد شریف کی شیرینی، فاتحہ، گیارہویں ، عرس وغیرہ ایصالِ ثواب کی چیزیں جن کی حرمت شریعت میں وارد نہیں ہوئی انہیں اس آیت کے حکم سے ڈرنا چاہئے کہ ایسی چیزوں کی نسبت یہ کہہ دینا کہ یہ شرعاً حرام ہیں اللّٰہ تعالیٰ پر افترا کرنا ہے۔
{مَتَاعٌ قَلِیْلٌ:تھوڑاسا فائدہ اٹھانا ہے۔} یعنی ان جاہلوں کیلئے تھوڑاسا فائدہ اٹھانا اور دنیا کی چند روزہ آسائش ہے جو باقی رہنے والی نہیں جبکہ ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۳ / ۱۴۹)