banner image

Home ur Surah An Nahl ayat 40 Translation Tafsir

اَلنَّحْل

An Nahl

HR Background

وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْۙ-لَا یَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ یَّمُوْتُؕ-بَلٰى وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَّ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(38)لِیُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِیْنَ(39)اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَاۤ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(40)

ترجمہ: کنزالایمان اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں حد کی کوشش سے کہ اللہ مُردے نہ اٹھائے گا ہاں کیوں نہیں سچا وعدہ اس کے ذمہ پر لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اس لیے کہ انہیں صاف بتادے جس بات میں جھگڑتے تھے اور اس لیے کہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ جو چیز ہم چاہیں اس سے ہمارا فرمانا یہی ہوتا ہے کہ ہم کہیں ہوجا وہ فوراً ہوجاتی ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور انہوں نے بڑی کوشش کرکے اللہ کی قسم کھائی کہ اللہ کسی مرنے والے کو نہ اٹھائے گا۔ کیوں نہیں ؟ یہ سچا وعدہ اس کے ذمہ پرہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ تاکہ انہیں واضح کر کے وہ بات بتادے جس میں جھگڑتے تھے اور تاکہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ جب ہم کوئی چیز چاہیں تو اسے ہمارا صرف یہی فرمانا ہوتا ہے کہ ہم اسے کہیں ’’ہوجا ‘‘تووہ فوراً ہوجاتی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ:اور انہوں  نے بڑی کوشش کرکے اللّٰہ کی قسم کھائی۔} شانِ نزول: ایک مشرک ایک مسلمان کا مقروض تھا، مسلمان نے مشرک سے اپنے قرض کا تقاضا کیا ، دورانِ گفتگو اس نے اِس طرح اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھائی کہ اس کی قسم! جس سے میں  مرنے کے بعد ملنے کی تمنا رکھتا ہوں ۔ اس پر مشرک نے کہا ’’ کیا تیرا یہ خیال ہے کہ تو مرنے کے بعد اٹھے گا اور مشرک نے قسم کھاکر کہا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مردے نہ اُٹھائے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کیوں  مُردوں  کو نہیں  اٹھائے گا؟ یقینا اٹھائے گا۔ یہ اس کا سچا وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ اِس اُٹھائے جانے کی حکمت اور اُس کی قدرت نہیں  جانتے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۱۲۲)

{لِیُبَیِّنَ لَهُمْ:تاکہ انہیں  واضح کر کے بتادے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ انہیں  اس لئے اٹھائے گا تاکہ انہیں  واضح کر کے وہ بات بتا دے جس میں  وہ مسلمانوں  سے جھگڑتے تھے کہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا حق ہے اور اس لئے اٹھائے گاتاکہ کافر جان لیں  کہ وہ جھوٹے تھے اورمردوں  کو زندہ کئے جانے کا انکار غلط تھا۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۵۹۵)

{اِنَّمَا:صرف ۔} یعنی جب ہم کسی چیز کو وجود میں  لانے کا ارادہ کریں  تو ا س سے ہم صرف اتنا کہہ دیتے ہیں  کہ ہو جا تو وہ اسی وقت وجود میں  آ جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہر مقدور چیز کو وجود میں  لانا اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اتنا زیادہ آسان ہے تو مرنے کے بعد اٹھانا اس کے لئے کیا مشکل ہے ۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۵۹۶)