banner image

Home ur Surah An Nahl ayat 57 Translation Tafsir

اَلنَّحْل

An Nahl

HR Background

وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْؕ-تَاللّٰهِ لَتُسْــٴَـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ(56)وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗۙ-وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ(57)

ترجمہ: کنزالایمان اور انجانی چیزوں کے لیے ہماری دی ہوئی روزی میں سے حصہ مقرر کرتے ہیں خدا کی قسم تم سے ضرور سوال ہونا ہے جو کچھ جھوٹ باندھتے تھے ۔ اور اللہ کے لیے بیٹیاں ٹھہراتے ہیں پاکی ہے اس کو اور اپنے لیے جو اپنا جی چاہتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور (کافر) ہماری دی ہوئی روزی میں سے انجانی چیزوں کیلئے حصہ مقرر کرتے ہیں ۔اللہ کی قسم! اے لوگو! تم سے اُس کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا جو تم جھوٹ باندھتے تھے۔ اوروہ اللہ کے لیے بیٹیاں قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ پاک ہے اور اپنے لیے وہ (مانتے ہیں )جو اپنا جی چاہتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا:اور (کافر) انجانی چیزوں  کیلئے حصہ مقرر کرتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کو اللّٰہ تعالیٰ نے جو فصلیں  اور مویشی عطا فرمائے وہ اِن میں  سے اُن بتوں  کے لئے حصہ مقرر کرتے ہیں  جنہیں  وہ معبود کہتے ہیں  اور ان کے بارے میں  یہ عقیدہ رکھتے ہیں  کہ بت نفع اور نقصان پہنچا سکتے ہیں  اور وہ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں ان کی شفاعت کریں  گے حالانکہ بتوں  میں  یہ اَوصاف موجود ہی نہیں  کیونکہ وہ تو پتھر ہیں  ،نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت کہاں  سے رکھیں  گے۔اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ کی قسم!اے لوگو! تم سے اُس کے بارے میں  ضرور پوچھا جائے گا جوتم بتوں  کو معبود ، تقرب کے لائق اوربت پرستی کو خدا کا حکم بتاکر اللّٰہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھتے تھے۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۲۲۰، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۵۹۸-۵۹۹، ملتقطاً)

{وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ:اوروہ اللّٰہ کے لیے بیٹیاں  قرار دیتے ہیں ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے توبیٹیاں  قرار دیتے ہیں  جیسے بنو خزاعہ اور کنانہ کے لوگ فرشتوں  کو اللّٰہ تعالیٰ کی بیٹیاں  کہتے تھے حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے اور اس کی شان میں  ایسا کہنا بہت بے ادبی اور کفر ہے۔ان کافروں میں  کفر کے ساتھ بدتمیزی کی انتہا یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لئے توبیٹے پسند کرتے ہیں  اور بیٹیاں  ناپسند کرتے ہیں  جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے جو مُطلقاً اولاد سے مُنَزّہ اور پاک ہے اور اس کے لئے اولاد ثابت کرنا ہی عیب لگانا ہے، اس کے لئے اولاد میں  بھی وہ ثابت کرتے ہیں  جس کو اپنے لئے حقیر اور عار کا سبب جانتے ہیں ۔(جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۱۰۷۳، ملخصاً)