Home ≫ ur ≫ Surah An Nahl ≫ ayat 91 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(91)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ:اور اللّٰہ کا عہد پورا کرو۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کرنے والے کاموں اور نہ کرنے والے کاموں کا اِجمالی طور پر ذکر فرمایا اور ا س آیت سے بعض اِجمالی اَحکام کو تفصیل سے بیان فرما رہا ہے اور ان میں سب سے پہلے عہد پورا کرنے کا ذکر کیا کیونکہ اس حق کو ادا کرنے کی تاکید بہت زیادہ ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے(بیعتِ رضوان کے موقع پر) رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اسلام پر بیعت کی تھی، انہیں اپنے عہد پورے کرنے کا حکم دیا گیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے وہ عہد ہے جسے انسان اپنے اختیار سے اپنے اوپر لازم کر لے اور اس میں وعدہ بھی داخل ہے کیونکہ وعدہ عہد کی قسم ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۱۴۰)حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’وعدہ عہد ہی کی ایک قسم ہے۔ حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تم جس شخص سے بھی عہد کرو تواسے پورا کرو ، خواہ وہ شخص مسلمان ہو یا کافر ، کیونکہ تم نے اس عہد پر اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کا نام لیا(اور اسے ضامن بنایا)ہے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۷ / ۲۶۳)
حضرت علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عہد سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے پورا کرنا انسان پر لازم ہے خواہ اسے پورا کرنا اللّٰہ تعالیٰ نے بندے پر لازم کیا ہو یا بندے نے خود اسے پورا کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا ہو جیسے پیرانِ عظام کے اپنے مریدین سے لئے ہوئے عہد کیونکہ ان میں مریدین اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور کسی کام میں اللّٰہ تعالیٰ کی مخالفت نہ کرنے کو اپنے اوپر لازم کر لیتے ہیں لہٰذا مریدین پر اسے پورا کرنا لازم ہے۔( صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۱۰۸۸-۱۰۸۹)
وعدہ پورا کرنے کی فضیلت اور عہد شکنی کی مذمت:
اس آیت میں عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیااس مناسبت سے ہم یہاں وعدہ پورا کرنے کی فضیلت اور عہد شکنی کی مذمت پر مشتمل3اَحادیث ذکرکرتے ہیں :
(1)…حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہوجاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ذمہ دار ہوتا ہوں ۔ (۱)جب بات کرو سچ بولو۔ (۲) جب وعدہ کرو اسے پورا کرو۔ (۳) جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے اسے ادا کرو ۔ (۴)اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔ (۵) اپنی نگاہیں نیچی رکھو ۔ (۶) اپنے ہاتھوں کو روکو۔‘‘(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ، ۸ / ۴۱۲، الحدیث: ۲۲۸۲۱) یعنی ہاتھ سے کسی کو ایذا نہ پہنچاؤ ۔
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔‘‘(بخاری، کتاب الادب، باب ما یدعی الناس بآبائہم، ۴ / ۱۴۹، الحدیث: ۶۱۷۷)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہو گا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔(بخاری، کتاب الحیل، باب اذا غصب جاریۃ فزعم انّہا ماتت۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۹۴، الحدیث: ۶۹۶۶)
{وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا:اور قسموں کو مضبوط کرنے کے بعد نہ توڑو۔} قسموں کو مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ قسم کھاتے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے اَسماء اور صفات زیادہ ذکر کئے جائیں اور قسم توڑنے کی ممانعت مضبوط کرنے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مُطْلَقاً قسم توڑنا منع ہے۔ یا قسم مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ قصداً قسم کھائی جائے، اس صورت میں لَغْو قسم اس حکم سے خارج ہو جائے گی۔( تفسیر جمل، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۴ / ۲۶۲، ملخصاً)
قسم سے متعلق چند مسائل:
یہاں قسم سے متعلق چند اہم مسائل یاد رکھیں :
(1)…قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو سکے کم قسم کھانا بہتر ہے اور بات بات پر قسم نہیں کھانی چاہیے ، بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھا ہے کہ قصداً اور بلا قصد زبان پر جاری ہوجاتی ہے اور اس کابھی خیال نہیں رکھتے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی، یہ سخت معیوب ہے ۔ غیرِ خدا کی قسم مکروہ ہے اور یہ شرعاً قسم بھی نہیں یعنی اس کے توڑنے سے کفارہ لازم نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ نہم، قسم کا بیان، ۲ / ۲۹۸،ملخصاً)
(2)…بعض قسمیں ایسی ہیں کہ اُنہیں پورا کرنا ضروری ہے مثلًا کوئی ایسا کام کرنے کی قسم کھائی جو بغیر قسم کرنا ضروری تھا یا گناہ سے بچنے کی قسم کھائی تو اس صورت میں قسم سچی کرنا ضروری ہے۔ مثلاً یوں کہا کہ خدا کی قسم ظہر پڑھوں گا یا چوری یا زنا نہ کروں گا۔ دوسری وہ کہ اُس کا توڑنا ضروری ہے مثلاً گناہ کرنے یا فرائض و واجبات ادانہ کرنے کی قسم کھائی، جیسے قسم کھائی کہ نماز نہ پڑھوں گا یا چوری کروں گا یا ماں باپ سے کلام نہ کروں گا تو ایسی قسم توڑ دے۔ تیسری وہ کہ اُس کا توڑنا مستحب ہے مثلاً ایسے کام کی قسم کھائی کہ اُس کے غیر میں بہتری ہے تو ایسی قسم کو توڑ کروہ کرے جو بہتر ہے۔ چوتھی وہ کہ مباح کی قسم کھائی یعنی کرنا اور نہ کرنا دونوں یکساں ہیں اس میں قسم کو باقی رکھنا افضل ہے۔( بہار شریعت، حصہ نہم، قسم کا بیان، ۲ / ۲۹۹، ملخصاً)
(3)…قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا اُن کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔( تبیین الحقائق، کتاب الایمان، ۳ / ۴۳۰)
نوٹ:قسم سے متعلق مسائل کی تفصیلی معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 9سے ’’قسم کا بیان ‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔([1])
[1] ۔۔۔نیز اس کے ساتھ ساتھ امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’قسم کے بارے میں مدنی پھول‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔