Home ≫ ur ≫ Surah An Najm ≫ ayat 11 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(11)
تفسیر: صراط الجنان
{ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى: دل نے اس کوجھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔} یعنی سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی جو چشمِ مبارک نے دیکھا ۔مراد یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھا ،دِل سے پہچانا اور اس دیکھنے اور پہچاننے میں شک اور تَرَدُّد نے راہ نہ پائی۔
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا:
اب رہی یہ بات کہ کیا دیکھا، اس بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ حضرت جبریلعَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا، لیکن صحیح مذہب یہ ہے کہ سَرْوَرِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے رب تعالیٰ کو دیکھا۔ اور یہ دیکھنا کیا سر کی آنکھوں سے تھا یا دل کی آنکھوں سے، اس بارے میں مفسرین کے دونوں قول پائے جاتے ہیں ایک یہ کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رب عَزَّوَجَلَّ کو اپنے قلب مبارک سے دیکھا۔
اورمفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رب عَزَّوَجَلَّ کو حقیقتاً چشمِ مبارک سے دیکھا ۔
یہ قول حضرت انس بن مالک،حضرت حسن اور حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خُلَّت اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلام اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے دیدار سے اِمتیاز بخشا۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دوبار کلام فرمایا اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ والنجم، ۵ / ۱۸۴، الحدیث: ۳۲۸۹)لیکن حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا اوراس آیت کو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے دیدار پر محمول کیا اور فرمایا کہ جو کوئی کہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا اس نے جھوٹ کہا اور اس بات کی دلیل کے طور پر یہ آیت ’’ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ‘‘ تلاوت فرمائی ۔
اس مسئلے کوسمجھنے کے لئے یہاں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا قول نفی میں ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا اِثبات میں اور جب نفی اور اثبات میں ٹکراؤ ہو تو مُثْبَت ہی مُقَدّم ہوتا ہے کیونکہ نفی کرنے والا کسی چیز کی نفی اس لئے کرتا ہے کہ اُس نے نہیں سنا اور کسی چیز کو ثابت کرنے والا اِثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا اور جانا تو علم ثابت کرنے والے کے پاس ہے۔اور ا س کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے یہ کلام حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نقل نہیں کیا بلکہ آیت سے جو آپ نے مسئلہ اَخذ کیا اس پر اعتماد فرمایا اوریہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی اپنی رائے ہے جبکہ درحقیقت آیت میں اِدراک یعنی اِحاطہ کی نفی ہے دیکھ سکنے کی نفی نہیں ہے ۔
صحیح مسئلہ یہ ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیدارِ الہٰی سے مُشَرَّف فرمائے گئے، مسلم شریف کی حدیث ِمرفوع سے بھی یہی ثابت ہے ،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا جو کہ حِبْرُ الْاُمَّت ہیں وہ بھی اسی پر ہیں ۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ قسم کھاتے تھے کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شبِ معراج اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا ۔ امام احمد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے تھے کہ حضو رِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا اُس کو دیکھا اُس کو دیکھا۔امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے یہاں تک کہ سانس ختم ہوگیا (پھر آپ نے دوسرا سانس لیا)۔(خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۸، ۴ / ۱۹۲، ۱۹۴، روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۲۲، ۲۲۳، ملتقطاً)