Home ≫ ur ≫ Surah An Najm ≫ ayat 32 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ-اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْۚ-فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى(32)
تفسیر: صراط الجنان
{ اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ: وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں ۔} گناہ وہ عمل ہے جس کا کرنے والا عذاب کا مستحق ہو یا یوں کہہ لیں کہ ناجائز کام کرنے کو گناہ کہتے ہیں ۔ بہرحال گناہ کی دو قسمیں ہیں : (1)صغیرہ ۔(2) کبیرہ ۔ کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے کرنے پر دنیا میں حد جاری ہو جیسے قتل، زنا اور چوری وغیرہ یا اس پر آخرت میں عذاب کی وعید ہو جیسے غیبت،چغل خوری،خود پسندی اور ریا کاری وغیرہ اور فواحش میں ہر قبیح قول ، فعل اور تمام صغیرہ ،کبیرہ گناہ داخل ہیں ، البتہ یہاں فواحش سے وہ کبیرہ گناہ مراد ہیں جن کی قباحت اور فساد بہت زیادہ ہو جیسے زنا کرنا، قتل کرنا اور چوری کرنا وغیرہ اور صغیرہ گناہ وہ ہے جس میں بیان کردہ باتیں نہ پائی جاتی ہوں ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نیکی کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے کہ اتنا تو کبیرہ گناہوں سے بچنے کی برکت سے معاف ہوجاتا ہے،بیشک تمہارے رب عَزَّوَجَلّ کی مغفرت وسیع ہے تو وہ جو گناہ چاہے بغیر توبہ کے معاف کر دے ۔(خازن، النجم،تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۹۶-۱۹۷، مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۸۱، ابو سعود، النجم، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۶۴۸، ملتقطاً)
گناہوں کی معافی کے معاملے میں اصول:
یاد رہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت بہت وسیع ہے ،وہ چاہے تو بڑے سے بڑے گناہگار مسلمان کو بغیر توبہ کے معاف فرما دے البتہ گناہوں کی معافی کے معاملے میں اصول یہ ہے کہ کبیرہ گناہ سچی توبہ کرنے سے معاف ہوتے ہیں اور صغیرہ گناہ کبیرہ گناہوں سے بچنے کی برکت سے بھی معاف ہو جاتے ہیں لیکن اگر کوئی صغیرہ گناہ مسلسل کرتے رہیں تو وہ صغیرہ نہیں رہتا بلکہ کبیرہ گناہ بن جاتا ہے،جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ توبہ کرنے سے کبیرہ گناہ باقی نہیں رہتا اور صغیرہ گناہ کرتے رہنے سے صغیرہ نہیں رہتا(بلکہ کبیرہ بن جاتا ہے)۔( مسند شہاب، ۵۵۵-لا کبیرۃ مع استغفار، ۲ / ۴۴، الحدیث: ۸۵۳)
کبیرہ گناہوں سے بچنے کی فضیلت:
کبیرہ گناہوں سے بچنے کی فضیلت کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا ‘‘(نساء:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے دوسرے گناہ بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ،جو بندہ پانچوں نمازیں ادا کرتا رہتا ہے، رمضان کے روزے رکھتا ہے،زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے تو اس کے لئے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے اور ا س سے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔( سنن نسائی، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، ص۳۹۹، الحدیث: ۲۴۳۵)
نوٹ:کبیرہ گناہوں سے متعلق مزید معلومات کے لئے سورہ ٔنساء کی آیت نمبر31کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ، نیز اس موضوع پر علامہ ابنِ حجر مکی کی تالیف ’’اَلزَّوَاجِر عَن اِقْتِرَافِ الْکَبَائِر‘‘ کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔
{هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ: وہ تمہیں خوب جانتا ہے۔} شانِ نزول: یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو نیکیاں کرتے اور اپنے عملوں کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے ہماری نمازیں ،ہمارے روزے، ہمارے حج۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! تم فخریہ طور پر اپنی نیکیوں کی تعریف نہ کرو اور جس کی حقیقت کے بارے میں تم نہیں جانتے اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں اس سے بہتر ہوں ،میں اس سے زیادہ پاکیزہ ہوں اور میں زیادہ مُتّقی ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کو خود جاننے والا ہے، وہ اُن کی ہستی کی ابتدا سے لے کر آخری اَیّام تک کے جملہ اَحوال جانتا ہے، وہ ان بندوں کوخوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں اور اسی کا جاننا کافی ہے کیونکہ وہی جزا دینے والا ہے لہٰذادوسروں پر اپنے اعمال کا اظہار اور نام و نمود سے کیا فائدہ ۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۹۸، مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۸۲)
ریاکاری،نام و نمود اور خود پسندی کی مذمت:
ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں ریا کاری ، اپنی نمود و نمائش اورخود پسندی کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی نعمت کے اعتراف اور اطاعت و عبادت پر مسرت اور اس کے ادائے شکر کے لئے نیکیوں کا ذکر کیا جائے تو جائز ہے۔( مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۸۲ملخصاً)
عبادت اور اطاعت کے معاملے میں خود پسندی بہت بڑی حماقت ہے کہ ہماری عبادتوں کی اوقات ہی کیا ہے جس پر ناز کیا جائے یا جس کی بنا پر خود کو اچھا سمجھا جائے۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اسی بات کو منہاج العابدین میں بہت پیاری مثالوں کے ساتھ سمجھایا ہے۔ تفصیلی مطالعہ کیلئے مذکورہ کتاب کا مطالعہ فرمائیں ۔ یہاں صرف ایک مثال دی جاتی ہے۔ فر ماتے ہیں : جب کوئی بڑا بادشاہ تحفہ اور تحائف پیش کرنے کی اجازت دے اور اس کی خدمت میں امیر ترین لوگ ،بادشاہ، بڑے بڑے مرتبے اور منصب والے،رئیس اور عقلمند لوگ طرح طرح کے قیمتی جواہرات، بہترین ذخیرے اور بے حساب مال و دولت کے تحائف پیش کرنے لگیں ،پھر اگر کوئی سبزی بیچنے والا معمولی قسم کی سبزی یا کوئی دیہاتی کم قیمت انگور کا خوشہ لے کر ان بڑے بڑے رئیسوں اور دولت مندوں کی جماعت میں گھس جائے جو بہترین ،عمدہ اور قیمتی تحائف لے کر کھڑے ہیں اور بادشاہ کی خدمت میں ہدیے اور نذرانے کے طور پر وہ سبزی یا انگور کا خوشہ پیش کرے،پھر وہ بادشاہ اس کا نذرانہ قبول کر لے اور اس کے لئے بہترین اور نفیس شاہانہ لباس دینے اور اس کی عزت و احترام کرنے کا حکم دے تو کیا یہ اُس بادشاہ کا اِس کے ساتھ انتہائی فضل و کرم نہ ہو گا اور پھر اگر یہ سبزی بیچنے والا یا دیہاتی بادشاہ پر احسان جتانے لگے اور اپنے اس ہدئیے پر اِترائے اور اسے بہت بڑا سمجھے اور بادشاہ کے احسان و انعام کو فراموش کر دے تو کیا ایسے شخص کو دیوانہ ، بدحواس،بے وقوف،بے ادب،گستاخ اورانتہائی جاہل و ناسمجھ نہیں کہا جائے گا، لہٰذا (اے مسلمان!) تم پر لازم ہے کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رات کے وقت نماز پڑھو اور دو رکعت نماز کی ادائیگی سے فارغ ہو کر غور و فکر تو کرو کہ روئے زمین کے مختلف خِطّوں اور گوشوں میں اس رات اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نجانے کتنے خُدّام کھڑے ہوں گے،اسی طرح سمندروں میں، جنگلوں میں ،صحراؤں میں ،پہاڑوں میں اور شہروں میں کتنے اللہ تعالیٰ کے بندے بارگاہِ الہٰی میں دست بستہ کھڑے ہوں گے اور صدیقین، خائفین، مشتاقین،مجتہدین اور عاجزی کرنے والوں کی کتنی جماعتیں اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑی ہوں گی اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے دربار میں کتنی ستھری عبادت اور کتنی خالص بندگی ڈرنے والی جانوں ،پاکیزہ زبانوں ،رونے والی آنکھوں ،خوفزدہ دلوں ،کدورتوں سے پاک سینوں اور پرہیز گار اعضاء کی طرف سے پیش ہو رہی ہوں گی اور تمہاری نماز،اگرچہ تم نے ا سے اچھی طرح ادا کرنے، اس کے اَحکام اوراخلاص کی رعایت کرنے میں بھرپور کوشش کی ہو گی لیکن پھر بھی اس بزرگ و برتر بادشاہ کے دربار میں پیش ہونے کے کہاں لائق ہو گی اور ان عبادتوں کے مقابلے میں اس کی کوئی حقیقت نہیں جو وہاں پیش ہو رہی ہیں اور کیوں نہ ہو کہ تم نے ان عبادتوں کو غافل دل سے ادا کیا اور اس میں طرح طرح کے عیوب و نقائص بھی ہیں اور بدن بھی گناہوں کی پلیدی سے نجس و ناپاک ہے اور زبان قسم قسم کے گناہوں اور بیہودگیوں سے آلودہ ہے تو ایسی ناقص نماز کہاں سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونے کے قابل ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسا ہدیہ پیش کرنے کی جرأت کون کر سکتا ہے؟(منہاج العابدین، العقبۃ السادسۃ، القادح الثانی، فصل فی من یعجب بعملہ وینسی فضل اللّٰہ علیہ، ص۱۸۷-۱۸۸)