Home ≫ ur ≫ Surah An Naml ≫ ayat 26 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ(22)اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ وَ اُوْتِیَتْ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ(23)وَجَدْتُّهَا وَ قَوْمَهَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَهُمْ لَا یَهْتَدُوْنَ(24)اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِ جُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ(25)اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ(26)
السجدة (8)
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ: تو ہد ہد کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہرا۔} ا س آیت اور اس کے بعد والی چار آیات میں اِس واقعے کا جو حصہ بیان ہوا ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدہدزیادہ دیر تک غیر حاضر نہ رہا بلکہ جلد ہی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دربار شریف میں حاضر ہو گیا اور انتہائی ادب،عاجزی اور اِنکساری کے ساتھ معافی طلب کر کے عرض کرنے لگا:میں وہ بات دیکھ کر آیا ہوں جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نہ دیکھی اور میں یمن کے ایک علاقے سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں ۔میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جس کا نام بلقیس ہے، وہ لوگوں پر بادشاہی کررہی ہے اور اسے ہر اس چیز میں سے وافر حصہ ملا ہے جو بادشاہوں کے لئے شایان ہوتا ہے اور اس کا ایک بہت بڑا تخت ہے جس کی لمبائی 80 گز، چوڑائی 40گز اور اونچائی30گزہے۔ وہ تخت سونے اور چاندی کا بنا ہوا ہے اور اس میں جواہرات لگے ہوئے ہیں ۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالٰی کی بجائے سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کی نگاہ میں اچھے بنادئیے اور انہیں سیدھی راہ سے روک دیا ہے، ا س لئے وہ سیدھا راستہ یعنی حق اور دین ِاسلام کا راستہ نہیں پاتے۔ تاکہ وہ اس اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی چیزوں یعنی بارش اور نباتات کو نکالتا ہے اورجو کچھ تم چھپاتے ہو اور جوظاہر کرتے ہو سب کو جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۶، ص۳۱۹، ملخصاً)
خیال رہے کہ ہد ہد کی گفتگو کے آخری حصے کا تعلق ان علوم سے ہے جو اس نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حاصل کئے تھے اور یہاں ہدہد نے اپنے دین کی مضبوطی ظاہر کرنے کے لئے یہ کلام کیا تھا۔( جمل، النمل، تحت الآیۃ: ۲۶، ۵ / ۴۳۶)
{اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ: تا کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں ۔} اس آیت اوراس کے بعد والی آیت میں سورج کی عبادت کرنے والوں بلکہ ان تمام باطل پرستوں کا رد ہے جو اللہ تعالٰی کے سوا کسی کو بھی پوجیں ۔ مقصود یہ ہے کہ عبادت کا مستحق صر ف وہی ہے جو کائناتِ اَرضی و سَماوی پر قدرت رکھتا ہو اور جمیع معلومات کا عالِم ہو، جو ایسا نہیں وہ کسی طرح عبادت کا مستحق نہیں ۔( خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۴۰۸، ملخصاً)
نوٹ : یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔