Home ≫ ur ≫ Surah An Naml ≫ ayat 47 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَؕ-قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ(47)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ: انہوں نے کہا:ہم نے تم سے برا شگون لیا۔} جب حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تو ان لوگوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا۔اس کی وجہ سے بارش رک گئی، یوں وہ لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے اور بھوکے مرنے لگے۔ ان مصائب کو انہوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری کی طرف منسوب کیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آمد کو بدشگونی سمجھتے ہوئے کہاکہ (مَعَاذَاللہ) ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔(جلالین مع صاوی، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۵۰۲، مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۸۴۹-۸۵۰، ملتقطاً)
{قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ: فرمایا: تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے۔} قومِ ثمود کے بدشگونی لینے پر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ تمہیں جو بھلائی اور برائی پہنچتی ہے وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے ہے اور وہ تمہاری تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: (آیت میں ذکر کئے گئے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قول کا معنی یہ ہے کہ) تمہارے پاس جو بدشگونی آئی یہ تمہارے کفر کے سبب اللہ تعالٰی کی طرف سے آئی ہے۔(خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۴۱۵)
بدشگونی لینے کی مذمت:
یاد رہے کہ بندے کو پہنچنے والی مصیبتیں اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہیں ، جیساکہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ’’مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَاؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ‘‘(حدید:۲۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: زمین میں اور تمہاری جانوں میں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے پیدا کرنے سے پہلے (ہی) ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے بیشک یہ اللہ پر آسان ہے۔
اور کوئی مصیبت اللہ تعالٰی کے حکم کے بغیر نہیں آتی،جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:
’’مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(تغابن:۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے۔
اور مصیبتیں آنے کا عمومی سبب بندے کے اپنے برے اعمال ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘(شوریٰ:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔
اور جب ایسا ہے تو کسی چیز سے بد شگونی لینا اور اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو اس کی نحوست جاننا درست نہیں اور کسی مسلمان کو تو یہ بات زیب ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی چیز سے بد شگونی لے کیونکہ یہ تو مشرکوں کا ساکام ہے جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار ارشاد فرمایا کہ بد شگونی شرک (یعنی مشرکوں کا سا کام) ہے اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ،اللہ تعالٰی اسے توکُّل کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴ / ۲۳، الحدیث: ۳۹۱۰)
اوپر بیان کردہ درس سے ان لوگوں کوعبرت حاصل کرنی چاہیے جو مصیبتوں اور پریشانیوں کو دوسروں کی نحوست قرار دیتے ہیں جیسے بالفرض اگر شادی کے بعد گھر میں مسائل و مصائب شروع ہوجائیں تو سارا الزام دلہن کے سر ڈال دیا جاتا ہے کہ جب سے یہ منحوس گھر میں آئی ہے تب سے مصیبتوں نے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے، وغیرہ۔ اس طرح کی بدشگونی سخت ممنوع اور ایسی دل آزاری سخت حرام ہے۔
بد شگونی کا بہترین علاج:
یہاں معاشرے میں رائج بد فالیوں اور بد شگونیوں کا ایک بہترین علاج ذکر کیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت عروہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس شگون کا ذکر کیا گیا تو فرمایا: ’’اس میں (نیک) فال اچھی چیز ہے۔ اور مسلمان کو کسی کام سے نہ روکے تو جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تویوں کہے: ’’اَللّٰہُمَّ لَا یَاْتِیْ بِالْحَسَنَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَلَا یَدْفَعُ السَّیِّئَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ‘‘ یعنی اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائیاں نہیں لاتا اور تیرے سوا کوئی برائیاں دور نہیں کرتا،نہ ہم میں طاقت ہے اور نہ قوت مگر تیری توفیق کے ساتھ۔(ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴ / ۲۵، الحدیث: ۳۹۱۹)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یہ عمل بہت ہی مُجرّب ہے، اِنْ شَآءَاللہ اس دعا کی برکت سے کوئی بری چیز اثر نہیں کرتی۔( مراٰۃ المناجیح، فال اور بدفالی لینے کا بیان، تیسری فصل، ۶ / ۲۲۲، تحت الحدیث: ۴۳۸۷)
{بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ: بلکہ تم ایک قوم ہو۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم ایسی قوم ہوجنہیں آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ تم ایسی قوم ہو جو اپنے گناہوں کے باعث عذاب میں مبتلا ہوئی ہے۔(مدارک، النمل، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۸۵۰)