banner image

Home ur Surah An Nasr ayat 1 Translation Tafsir

اَلنَّصْر

An Nasr

HR Background

اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ(1)وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا(2)فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا(3)

ترجمہ: کنزالایمان جب اللہ کی مدد اور فتح آئے ۔ اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اللہ کے دین میں فوج فوج داخل ہوتے ہیں ۔ تو اپنے رب کی ثناء کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان جب اللہ کی مدد اور فتح آئے گی۔ اور تم لوگوں کو دیکھو کہ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہو رہے ہیں ۔ تو اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے پاکی بیان کرو اور اس سے بخشش چاہو، بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ: جب اللّٰہ کی مدد اور فتح آئے گی۔} اس سورت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،جب آپ کے دشمنوں  کے خلاف آپ کے پاس اللّٰہ تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے اور تم لوگوں  کو دیکھو کہ پہلے وہ ایک ایک دودو کر کے اسلام میں  داخل ہو رہے تھے اور اب وہ اللّٰہ تعالیٰ کے دین میں  فوج درفوج داخل ہورہے ہیں  تواس وقت اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرنا اور اس سے اپنی امت کے لئے بخشش چاہنا ،بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔یاد رہے کہ اس آیت میں  فتح سے اسلام کی عام فتوحات مراد ہیں  یا خاص فتحِ مکہ مراد ہے۔( خازن، النّصر، تحت الآیۃ: ۱-۳، ۴ / ۴۲۳-۴۲۴، مدارک، النّصر، تحت الآیۃ: ۱-۳، ص۱۳۸۰، ملتقطاً)

سورہِ نصر کی آیت نمبر 2سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 6باتیں  معلوم ہوئیں

(1)…صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی تعداد پانچ یا سات نہیں  بلکہ ہزاروں  میں  ہے۔

(2)…فتحِ مکہ کے موقع پر اور فتحِ مکہ کے بعد ایمان لانے والوں  کا ایمان قبول ہوا، اس میں حضرت ابو سفیان، حضرتِ امیر ِمعاویہ اورحضرتِ وحشی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ  سب ہی شامل ہیں  ۔

(3)…یہ لوگ بعد میں  بھی دین پر قائم رہے کیونکہ ان کا دین میں  داخل ہونا اس آیت سے ثابت ہے، لیکن دین سے نکل جانا کسی دلیل سے ثابت نہیں  ، نیز اگر یہ لوگ مُرتد ہونے والے ہوتے تو اللّٰہ تعالیٰ ان کے ایمان کو اس شاندار طریقہ سے بیان نہ فرماتا ۔

(4)…اس آیت میں  غیبی خبر دی گئی ہے۔یہ غیبی خبر فتحِ مکہ کے موقع پر پوری ہوئی اور لوگ مختلف جگہوں  سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی غلامی کے شوق میں  گروہ در گروہ چلے آتے اورشرفِ اسلام سے مشرف ہوتے جاتے تھے۔

(5)… حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو اپنی زندگی کی خبر تھی کہ فتحِ مکہ اور ان واقعات کو بغیر دیکھے ختم نہ ہوگی۔

(6)…رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے زمانے میں  بڑی سعادت مندی یہ تھی کہ حضورِاَ قدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہو کر ایمان لایا جائے۔

{فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ: تو اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرو اور اس سے بخشش چاہو ۔} اس سورت کے نازل ہونے کے بعدتاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے’’ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ ‘‘کی بہت کثرت فرمائی۔

            حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ سورت حجۃُ الوداع میں  مِنیٰ کے مقام پر نازل ہوئی ۔اس کے بعد آیت’’ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ‘‘ نازل ہوئی، اس کے نازل ہونے کے بعد80 د ن حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے دنیا میں  تشریف رکھی، پھر آیۂ ’’الْكَلٰلَةِؕ ‘‘ نازل ہوئی، اس کے بعد حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  50 دن دنیا میں  تشریف فرما رہے۔ پھر آیت ’’وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ‘‘ نازل ہوئی، اس کے بعد حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  21دن یا 7 دن دنیا میں  تشریف فرما رہے۔( جلالین مع جمل، النصر، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۴۲۶)

             اس سورت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ  نے سمجھ لیا تھا کہ دین کامل اور تمام ہوگیا تو اب رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  دنیا میں  زیادہ عرصہ تشریف نہ رکھیں  گے، چنانچہ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  یہ سورت سن کر اسی خیال سے روئے۔ مروی ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعدسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ میں فرمایا’’ ایک بندے کو اللّٰہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے چاہے دنیا میں  رہے چاہے اس کی ملاقات قبول فرمائے، اس بندہ نے اللّٰہ تعالیٰ کی ملاقات اختیار کر لی ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ پر ہماری جانیں ،ہمارے مال ،ہمارے آباء اورہماری اولادیں  سب قربان ہیں ۔( تفسیر کبیر ، النّصر ، تحت الآیۃ : ۳، ۱۱ / ۳۴۶، روح البیا ن، النّصر، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۵۳۱، مدارک، النّصر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۸۰، ملتقطاً)