Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 10 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا(10)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا:بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں۔} اس سے پہلی آیات میں یتیموں کا مال ناحق کھانے سے منع کیا گیا اور ا س آیت میں یتیموں کا مال ناحق کھانے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے اور یہ سب یتیموں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کیونکہ وہ انتہائی کمزور اور عاجز ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید لطف و کرم کے حقدارتھے۔اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ’’ وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں ‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ یتیموں کا مال ناحق کھانا گویا آگ کھانا ہے کیونکہ یہ مال کھانا جہنم کی آگ کے عذاب کا سبب ہے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۰۶)
احادیثِ مبارکہ میں بھی یتیموں کا مال ناحق کھانے پر کثیر وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے 3وعیدیں درجِ ذیل ہیں:
(1)…حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے مونہوں سے آگ نکل رہی ہو گی۔عرض کی گئی: یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا ’’کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا‘‘ بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔(کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، ۲ / ۹، الجزء الرابع، الحدیث: ۹۲۷۹)
(2)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے مونہوں میں آگ کے پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! عَلَیْہِ السَّلَام، یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کامال ظلم سے کھاتے تھے۔ (تہذیب الآثار، مسند عبد اللہ بن عباس، السفر الاول، ذکر من روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ رأی، ۲ / ۴۶۷، الحدیث: ۷۲۵)
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ چار شخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ چکھانا اللہ تعالیٰ پر حق ہے۔ (1) شراب کا عادی۔ (2) سود کھانے والا۔ (3) ناحق یتیم کا مال کھانے والا۔ (4) والدین کا نافرمان۔(مستدرک، کتاب البیوع، انّ اربی الربا عرض الرجل المسلم، ۲ / ۳۳۸، الحدیث: ۲۳۰۷)
یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآنِ پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں ، انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ یہاں ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو حرام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں مُلَوَّث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثاء میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقراء کیلئے بنائے جائیں اور صرف بالغ موجود ورثاء کے مال سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گااور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔
یتیم کی اچھی پرورش کے فضائل:
جس کے زیر سایہ کوئی یتیم ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس یتیم کی اچھی پرورش کرے ، اَحادیث میں یتیم کی اچھی پرورش کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 4فضائل درجِ ذیل ہیں:
(1)…حضرت سہل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ پھراپنی شہادت والی اور در میان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کشادہ کیا۔(بخاری، کتاب الطلاق، باب اللعان، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۵۳۰۴)
(2)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمہ داری لی، اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے جنت میں داخل فرمائے گا مگر یہ کہ وہ ایسا گناہ کرے جس کی معافی نہ ہو۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الیتیم، وکفالتہ، ۳ / ۳۶۸، الحدیث: ۱۹۲۴)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ مسلمانوں کے گھروں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم سے اچھاسلوک کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں سے برا گھر وہ ہے جس میں یتیم سے برا سلوک کیا جائے۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حق الیتیم، ۴ / ۱۹۳، الحدیث: ۳۶۷۹)
(4)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رحمت ِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے یتیم کے سر پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کیلئے ہاتھ رکھا تواس کے لئے ہر بال کے بدلے جن پر اس کا ہاتھ گزرا نیکیاں ہیں۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی، ۸ / ۳۰۰، الحدیث: ۲۲۳۴۷)