banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 100 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةًؕ-وَ مَنْ یَّخْرُ جْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَ قَعَ اَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(100)

ترجمہ: کنزالایمان اور جو اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ کر نکلے گا وہ زمین میں بہت جگہ اور گنجائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے نکلا اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرتا پھر اسے موت نے آلیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہوگیا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے تو وہ زمین میں بہت جگہ اور گنجائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلا پھر اسے موت نے آلیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہوگیا اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے۔} شانِ نزول : اس سے پہلی آیت جب نازل ہوئی تو حضرت جُنْدَع بن ضَمرہ اَللّیْثِیْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اِسے سنا، یہ بہت بوڑھے شخص تھے ،کہنے لگے کہ میں مُستَثنیٰ لوگوں میں تو ہوں نہیں کیونکہ میرے پاس اتنا مال ہے کہ جس سے میں مدینہ طیبہ ہجرت کرکے پہنچ سکتا ہوں۔ خدا کی قسم ، اب میں مکہ مکرمہ میں ایک رات نہ ٹھہروں گا، مجھے لے چلو چنانچہ ان کو چار پائی پر لے کرچلے لیکن مکہ مکرمہ کے بالکل قریب ہی مقامِ تَنعیم میں آکر ان کا انتقال ہوگیا۔ آخری وقت انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور کہا، یارب! عَزَّوَجَلَّ، یہ تیرا ہے اور یہ تیرے رسول کاہے ،میں اُس چیز پر بیعت کرتا ہوں جس پر تیرے رسول نے بیعت لی ۔ سُبْحَانَ اللہ، یہ خبر پا کر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے فرمایا، کاش وہ مدینہ پہنچتے توان کا اجر کتنا بڑا ہوتا اور مشرک ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ جس مطلب کے لئے نکلے تھے وہ نہ ملا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔  (بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۳۷۵)

اور ان کی عظمت و شان کو بہترین انداز میں بیان فرمایا کہ جو راہِ خدا میں ہجرت کرے پھر اسے منزل تک پہنچنے سے پہلے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کریم کے وعدے اور اس کے فضل و کرم سے اس کے ذمۂ کرم پر ہے ، یوں نہیں کہ اس پر بطورِ معاوضہ واجب ہے کیونکہ اس طور پر کوئی چیزاللہ عَزَّوَجَلَّ  پر واجب نہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان اس سے بلند ہے۔

نیکی کا ارادہ کر کے نیکی کرنے سے عاجز ہوجانے والا اس نیکی کا ثواب پائے گا:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو کوئی نیکی کا ارادہ کرے اور اس کو پورا کرنے سے عاجز ہوجائے وہ اس نیکی کا ثواب پائے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص نے نیکی کا ارادہ کیا اور نیکی نہیں کی تو ا س کی ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور نیکی کر لی تو اس کے لئے دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیا ں لکھ دی جاتی ہیں اور جس نے گناہ کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہیں کیا تو اس کا گناہ نہیں لکھا جاتا اور اگر وہ گناہ کر لے تو ایک گناہ لکھ دیاجاتا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب اذا ہمّ العبد بحسنۃ کتبت۔۔۔ الخ، ص۷۹، الحدیث: ۲۰۶(۱۳۰))

کن کاموں کے لئے وطن چھوڑنا ہجر ت میں داخل ہے:

             صدرُالاَفاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ طلب ِ ِعلم، جہاد، حج و زیارت ِ مدینہ، نیکی کے کام، زہد و قناعت اور رزقِ حلال کی طلب کے لیے ترک ِوطن کرنا خدا اور رسول کی طرف ہجرت ہے، اس راہ میں مرجانے والا اجر پائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے مروی ہے،  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جسے علم حاصل کرتے ہوئے موت آ گئی وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان صرف درجۂ نبوَّت کا فرق ہو گا۔(معجم الاوسط، باب الیاء، من اسمہ یعقوب، ۶ / ۴۷۵، الحدیث: ۹۴۵۴)

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو حج کے لئے نکلا اور مر گیا، قیامت تک اس کے لئے حج کرنے والے کاثواب لکھا جائے گا اور جو عمرہ کے لئے نکلا اور مر گیا، اس کے لئے قیامت تک عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا۔  (مسند ابو یعلی، مسند ابی ہریرۃ، ۵ / ۴۴۱، الحدیث: ۶۳۲۷)