Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 103 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْۚ-فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَۚ-اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(103)
تفسیر: صراط الجنان
{فَاذْكُرُوا اللّٰهَ: تو اللہ کو یاد کرو۔} یعنی ذکرِ الٰہی کی ہر حال میں ہمیشگی کرو اور کسی حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے غافل نہ رہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے ہر فرض کی ایک حد معیَّن فرمائی سوائے ذکر کے کہ اس کی کوئی حد نہ رکھی بلکہ فرمایا کہ ذکر کرو کھڑے بیٹھے کروٹوں پر لیٹے، رات میں ہو یا دن میں ،خشکی میں ہو یا تری میں ،سفر میں اور حضر میں ، غناء میں اور فقر میں ، تندرستی اور بیماری میں پوشیدہ اور ظاہر۔ (تفسیر طبری، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۴ / ۲۶۰)
یہاں آیت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے متعلق 2 شرعی مسائل ملاحظہ ہوں:
(1)…اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازوں کے بعد جو کلمہ توحیدکا ذکر کیا جاتا ہے وہ جائز ہے جیسا کہ مشائخ کی عادت ہے اور بخاری و مسلم کی احادیثِ صحیحہ سے بھی یہ ذکرثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضورِا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر فرض نماز کے بعد یوں کہا کرتے تھے ’’لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ، اَللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ‘‘ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی دولت مند کو تیرے مقابلے پر دولت نفع نہیں دے گی۔(بخاری، کتاب الاذان، باب الذکر بعد الصلاۃ، ۱ / ۲۹۴، الحدیث: ۸۴۴)
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہر نماز میں سلام پھیرنے کے بعد یہ فرماتے تھے :لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہُ وَلَا نَعْبُدُ اِلاَّ اِیَّاہُ لَہُ النِّعْمَۃُ وَلَہُ الْفَضْلُ وَلَہُ الثَّنَائُ الْحَسَنُ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ ‘‘ اور حضرت عبد اللہ بن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کہاکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر نماز کے بعد یہ کلمات بلند آوازسے فرماتے تھے ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ، ص۲۹۹، الحدیث: ۱۳۹(۵۹۴))
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :بلند آواز سے ذکر کرنا جبکہ لوگ فرض نماز سے فارغ ہو جاتے یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عہد مبارک میں رائج تھا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب میں اس (بلند آواز سے ذکر کرنے) کو سنتا تو اسی سے لوگوں کے (نماز سے) فارغ ہونے کو جان لیتا تھا۔(بخاری، کتاب الاذان، باب الذکر بعد الصلاۃ، ۱ / ۲۹۳، الحدیث: ۸۴۱، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب الذکر بعد الصلاۃ، ص۲۹۹، الحدیث: ۱۲۲(۵۸۳))
البتہ یہ یاد رہے کہ ذکر کرتے وقت اتنی آواز سے ذکر کیا جائے کہ کسی نمازی یا سونے والے کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔
(2)…ذکر میں تسبیح، تحمید، تہلیل ،تکبیر، ثناء، دعا سب داخل ہیں۔
{ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا: مقررہ وقت پر فرض ہے۔}نماز کے اوقات مقرر ہیں لہٰذا لازم ہے کہ ان اوقات کی رعایت کی جائے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سفر میں دو نمازیں جمع نہیں ہو سکتیں۔ احادیث میں بھی سفر کے دوران دو نمازوں کو جمع کرنے کی نفی کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی کوئی نماز ا س کے غیر وقت میں پڑھی ہو مگر دو نمازیں کہ ایک ان میں سے نمازِمغرب ہے جسے مُزدلفہ میں عشاء کے وقت پڑھا تھا اور وہاں فجر بھی روز کے معمولی وقت سے پہلے تاریکی میں پڑھی تھی۔ (مسلم، کتاب الحج، باب استحباب زیادۃ التغلیس بصلاۃ الصبح۔۔۔ الخ، ص۶۷۱، الحدیث: ۲۹۲(۱۲۸۹))
حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک بار کے سوا کبھی کسی سفر میں مغرب و عشاء ملاکر نہ پڑھی ۔ (ابو داؤد، کتاب صلاۃ المسافر، باب الجمع بین الصلاتین، ۲ / ۹، الحدیث: ۱۲۰۹)
یاد رہے کہ جس سفر میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھا وہ حجۃ الوداع کا سفر تھا اور نویں ذی ا لحجہ کو مزدلفہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھا تھا اوردیگر جن احادیث میں دو نمازیں جمع کرنے کا ذکر ہے وہاں جمع صوری مراد ہے یعنی پہلی نماز آخر ی وقت میں اور دوسری نماز اول وقت میں ادا کی گئی جیساکہ درج ذیل دو روایات سے واضح ہے، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہنچنے کی جلدی ہوتی تو (آخری وقت سے کچھ دیر پہلے) مغرب کی اقامت کہہ کر نماز پڑھ لیتے ،سلام پھیر کر کچھ دیر ٹھہرتے پھر عشاء کی اقامت ہوتی اور نماز عشاء کی دو رکعتیں پڑھتے۔(بخاری، کتاب تقصیر الصلاۃ، باب یصلی المغرب ثلاثاً فی السفر، ۱ / ۳۷۴، الحدیث: ۱۰۹۲ )
حضرت نافع اور حضرت عبداللہ بن واقد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے مؤذن نے نماز کے لئے کہا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:چلتے رہو، یہاں تک کہ جب شَفَق ڈوبنے کے قریب ہوئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اتر کر نمازِ مغرب پڑھی، پھر انتظار فرمایا یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی ، اس وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نمازِ عشاء پڑھی ،پھر فرمایا ’’حضور سیّدعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب (کسی کام کی وجہ سے) جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے جیسامیں نے کیا۔ (ابو داؤد، کتاب صلاۃ المسافر، باب الجمع بین الصلاتین، ۲ / ۱۰، الحدیث: ۱۲۱۲)
نوٹ:اس مسئلے سے متعلق تفصیلی اور تحقیقی معلومات حاصل کرنے لئے فتاوی رضویہ کی پانچویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام حمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’حَاجِزُ الْبَحْرَیْنْ اَلْوَاقِیْ عَنْ جَمْعِ الصَّلَاتَینْ‘‘ (دو نمازیں ایک وقت میں پڑھنے کی ممانعت پر رسالہ)کا مطالعہ فرمائیں۔