Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 105 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُؕ-وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآىٕنِیْنَ خَصِیْمًا(105)وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(106)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ:اے حبیب!بیشک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر کے ایک شخص طُعْمَہ بن اُبیر ِق نے اپنے ہمسایہ قتادہ بن نعمان کی زرہ چرا کر آٹے کی بوری میں ایک یہودی کے ہاں چھپادی جب زرہ کی تلاش ہوئی اور طعمہ پر شُبہ کیا گیا تو وہ انکار کرگیا اور قسم کھا گیا۔ بوری پھٹی ہوئی تھی اور آٹا اس میں سے گرتا جاتا تھا، اس کے نشان سے لوگ یہودی کے مکان تک پہنچے اور بوری وہاں پائی گئی، یہودی نے کہا کہ طعمہ اس کے پاس رکھ گیا ہے اور یہودیوں کی ایک جماعت نے اس کی گواہی دی اور طعمہ کی قوم بنی ظفر نے یہ عَزم کرلیا کہ یہودی کو چور قرار دیں گے اور اس پر قسم کھالیں گے تاکہ ہماری قوم رسوا نہ ہو اور ان کی خواہش تھی کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طعمہ کو بری کردیں اور یہودی کو سزا دیں۔ اسی لیے انہوں نے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے طعمہ کے حق میں اور یہودی کے خلاف جھوٹی گواہی دی۔ تب یہ آیتِ کریمہ اتری۔(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۲ / ۲۴۸)
اس آیت میں بظاہر خطاب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن در حقیقت قیامت تک کے حکام کو سنانا مقصود ہے کہ فیصلہ کرنے میں کوتاہی نہ کیا کریں اور صحیح ملزم کو بغیر رُو رعایت سزا پوری دیا کریں۔ طعمہ بظاہر مومن تھا اور یہودی کافر تھا مگر فیصلہ اس موقعہ پر یہودی کے حق میں ہوا۔
تَعَصُّب کا رد:
اسی آیت سے تعصب کا رد بھی ہوتا ہے کہ اسلام میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ آدمی اپنی قوم یا خاندان کی ہر معاملے میں تائید کرے اگرچہ وہ باطل پر ہوں بلکہ حق کی اِتّباع کرنا ضروری ہے۔ اس میں رنگ و نسل، قوم وعلاقہ، ملک و صوبہ، زبان و ثقافت کے ہر قسم کے تعصب کا رد ہے۔ کثیر احادیث میں بھی تعصب کا شدید رد کیا گیا ہے ، چنانچہ ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت فُسِیلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میرے والد نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا بھی تعصب ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نے ارشاد فرمایا ’’نہیں ، بلکہ اپنی قوم کی ظلم میں مدد کرنا تعصب ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العصبیۃ، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۴۹)
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو بلا وجہ جنگ کرے یا تعصب کی جانب بلائے یا تعصب کی وجہ سے غصہ کرے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العصبیۃ، ۴ / ۳۲۶، الحدیث: ۳۹۴۸)
(3)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بد ترین شخص وہ ہو گا جس نے کسی کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد کر لی۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب اذا التقی المسلمان بسیفہما، ۴ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۹۶۶)