Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 112 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(110)وَ مَنْ یَّكْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا یَكْسِبُهٗ عَلٰى نَفْسِهٖؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(111)وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا(112)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا: اور جوبرا عمل کرے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں تین چیزیں بیان فرمائی گئیں۔ پہلی یہ کہ جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے معافی کا طلبگار ہواور سچی توبہ کرے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرے تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو غفور ورحیم پائے گا۔ سُبْحَانَ اللہ۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ جو گناہ کرے گا وہی اس گناہ کا وبال اٹھائے گا، یہ نہ ہوگا کہ گناہ کوئی کرے اور اس کا وبال کسی دوسرے کی گردن پر رکھ دیا جائے ۔
یہاں یہ بات یادرہے کہ جو کسی گناہ جاریہ کا سبب بنا تو اسے گناہ کرنے والوں کے گناہ سے بھی حصہ ملے گا جیسے کسی نے سینما کھولا یا شراب خانہ کھولا یا بے حیائی کا اڈا کھولا یا اپنی دکان وغیرہ پر فلمیں چلائیں جہاں لوگ بیٹھ کر دیکھیں یا کسی کو غلط راہ پر لگادیا یا کسی کو شراب، جوا یا نشے کا عادی بنادیا تو اس صورت میں گناہ کا کام کرنے والے اور اُسے اِس راہ پر لگانے والے دونوں کو گناہ ہوگا۔ احادیث میں یہ مضمون بکثرت ملتا ہے ، چنانچہ ان میں سے4اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ہر وہ جان جسے ظُلماً قتل کیا جائے تو اُس کے خون کا گناہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پہلے بیٹے پرہو گا کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ نکالا۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب خلق آدم صلوات اللہ علیہ وذرّیتہ، ۲ / ۴۱۳، الحدیث: ۳۳۳۵)
(2)… حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا پھر اس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا تو عمل کرنے والے کے ثواب کی مثل ثواب اِس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور اُن عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کیا پھر اس کے بعداُس پر عمل کیا گیا تو عمل کرنے والے کے گناہ کی مثل گناہ اُس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور اِن عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۷، الحدیث: ۱۵(۲۶۷۳))
(3)…حضرت ابو مسعود انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی بھلائی کے کام پر رہنمائی کی تو اس کے لئے وہ کام کرنے والے کی طرح ثواب ہے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل اعانۃ الغازی فی سبیل اللہ۔۔ الخ، ص۱۰۵۰، الحدیث: ۱۳۳(۱۸۹۳))
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو ہدایت کی طرف بلائے تو اسے ویسا ثواب ملے گا جیسا اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی اور جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے ویسا گنا ہ ملے گا جیسا اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہو گی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۸، الحدیث: ۱۶(۲۶۷۴))
{وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا: اور جو کوئی غلطی یا گناہ کا اِرتِکاب کرے۔} اس آیت میں تیسری بات ارشاد فرمائی گئی کہ جس نے کسی بے گناہ پر الزام لگایا تو اس نے بہتان اور بہت بڑے گناہ کا بوجھ اٹھایا۔ آیت میں گناہ سے مراد گناہِ کبیرہ اور خطا سے مراد گناہِ صغیرہ ہے۔
اس آیت سے معلوم ہو اکہ بے گناہ کو تہمت لگانا سخت جرم ہے وہ بے گناہ خواہ مسلمان ہو یا کافر کیونکہ طعمہ نے یہودی کافر کو بہتان لگایا تھا اس پراللہ تعالیٰ نے ا س کی مذمت فرمائی ۔احادیث میں بھی بے گناہ پرتہمت لگانے کی وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،چنانچہ
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تواللہ تعالیٰ اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔(اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا)(معجم الاوسط، من اسمہ مقدام، ۶ / ۳۲۷، الحدیث: ۸۹۳۶)
حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، ۵ / ۵۲۸، الحدیث: ۸۱۷۱)
اسلام کا اعلیٰ اخلاقی اصول:
اس آیت سے ایک تو کسی پر بہتان لگانے کا حرام ہونا واضح ہوا اور دوسرا اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا علم ہوا کہ اسلام میں انسانی حقوق کا کس قدر پاس اور لحاظ ہے، حتّی کہ کافر تک کے حقوق اسلام میں بیان کئے گئے ہیں۔ یہ واقعہ اور آیات ِ مبارکہ کفار کے سامنے پیش کرنے کی ہیں کہ دیکھو اسلام کی تعلیمات کتنی حسین اور عمدہ ہیں۔