Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 152 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓىٕكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(152)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ: اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے۔} یہاں آیت میں ایمان والوں سے اجرو ثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے اور اس میں کبیرہ گناہوں کا مُرْتَکِب بھی داخل ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان رکھتا ہے۔
مُعتَزِلہ فرقے والے کبیرہ گناہ کرنے والوں کیلئے ہمیشہ کے عذاب ِ جہنم کا عقیدہ رکھتے ہیں ، اس آیت سے ان کے اس عقیدہ کا بطلان (یعنی غلط ہونا) ثابت ہوگیا۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا(حجرات: ۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کفر نہیں کیونکہ جنگ و جِدال گنا ہ ہے لیکن دونوں گروہوں کو مومن فرمایا گیا۔ نیز صحیح بخاری میں ہے، حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سفید کپڑے پہن کر آرام فرما رہے تھے ،پھر میں دوبارہ حاضر ہوا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہو چکے تھے ،چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو بندہ یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی وعدے پر اس کا انتقال ہو جائے تو وہ جنت میں داخل ہوا۔ میں نے عرض کی: خواہ ا س نے زنا یا چوری کی، ارشاد فرمایا ’’خواہ ا س نے زنا یا چوری کی۔ میں نے پھر عرض کی :اگرچہ وہ زنا یا چوری کرے! ارشاد فرمایا ’’اگرچہ وہ زنا یا چوری کرے ،میں نے پھرعرض کی: خواہ ا س نے زنا یا چوری کی، ارشاد فرمایا ’’خواہ ا س نے زنا یا چوری کی،خواہ ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو جائے۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب الثیاب البیض، ۴ / ۵۷، الحدیث: ۵۸۲۷)
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں کے لئے ہے جو کبیرہ گناہوں کے مُرْتَکِب ہوں۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۱۱-باب منہ، ۴ / ۱۹۸، الحدیث: ۲۴۴۴)
ان اَحادیث سے بھی معلوم ہو ا کبیرہ گناہ کرنے والا کافر نہیں کیونکہ کافر نہ تو کبھی جنت میں جائے گا اور نہ ہی سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی شفاعت فرمائیں گے بلکہ جنت میں صرف مسلمان جائیں گے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت بھی صرف مسلمانوں کو نصیب ہو گی اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوں۔
یاد رہے کہ اہلِ سنت کا اِجماع ہے کہ مومن کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا، چنانچہ شرح عقائدِ نَسْفِیَہ میں ہے ’’نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے سے لے کر آج تک امت کااس بات پر اجماع ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے جو شخص بغیر توبہ کے مر گیا تو اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے لئے دعا و اِستغفار بھی کی جائے گی اگرچہ اس کا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہونا معلوم ہو حالانکہ اس بات پر پہلے ہی امت کا اتفاق ہے کہ مومن کے علاوہ کسی اور کے لئے نمازِ جنازہ اور دعا ء و استغفار جائز نہیں۔(شرح عقائد نسفیہ، مبحث الکبیرۃ، ص۱۱۰)
شرح فِقہِ اکبر میں ہے ’’ہم خارجیوں کی طرح کسی گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کریں گے اگرچہ وہ گناہِ کبیرہ ہو البتہ اگر وہ کسی ایسے گناہ کو حلال جانے جس کی حرمت قطعی دلیل سے ثابت ہو تو وہ کافر ہے، اور ہم معتزلہ کی طرح کسی کبیرہ گناہ کرنے والے سے ایمان کاوصف ساقط نہیں کریں گے اور کبیرہ گناہ کرنے والے کو حقیقی مومن کہیں گے کیونکہ اہلِ سنت و جماعت کے نزدیک ایمان دل سے تصدیق کرنے اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے جبکہ عمل کا تعلق کمالِ ایمان سے ہے ۔(شرح فقہ اکبر، الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الایمان، ص۷۱ و۷۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ آدمی حقیقۃً کسی بات سے مشرک نہیں ہوتا جب تک غیرِ خدا کو معبود یا مُستَقِل بِالذّات وواجب الوجود نہ جانے۔ بعض نصوص میں بعض افعال پر اطلاقِ شرک تَشبیہاًیا تَغلیظاً یا بارادہ و مقارنت باعتقاد منافی توحید وامثال ذلک من التاویلات المعروفۃ بین العلماء وارد ہوا ہے، جیسے کفر نہیں مگر انکارِ ضروریاتِ دین اگرچہ ایسی ہی تاویلات سے بعض اعمال پر اطلاقِ کفر آیا ہے یہاں ہر گز علی الاطلاق شرک وکفر مصطلح علم عقائد کہ آدمی کو اسلام سے خارج کردیں اور بے توبہ مغفور نہ ہوں زنہار مراد نہیں کہ یہ عقیدۂ اجماعیۂ اہلسنّت کے خلاف ہے، ہر شرک کفر ہے اور کفر مزیلِ اسلام، اور اہلسنّت کا اجماع ہے کہ مومن کسی کبیرہ کے سبب اسلام سے خارج نہیں ہوتا ایسی جگہ نصوص کو علی اطلاقہا کفر وشرک مصطلح پر حمل کرنا اشقیائے خوارج کا مذہب مطرود ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۱۳۱)
خلاصہ عبارت یہ ہے کہ آدمی صرف دو چیزوں سے مشرک ہوتا ہے (1) غیرِ خدا کو معبود ماننے سے ، (2) اللہ کے علاوہ کسی کو مستقل بِالذّات ماننے سے۔ا ن دوچیزوں کے علاوہ کسی تیسری چیز سے آدمی حقیقتاً مشرک نہیں ہوتا۔ اور بعض اَحادیث وغیرہ میں جو کچھ کاموں کو بغیر کسی قید کے شرک یا کفر کہا گیا ہے ان کی تاویلات و تَوجِیہات علماء میں مشہور ہیں یعنی یا تو وہاں کفر و شرک سے تشبیہ مراد ہوتی ہے یااس کام پر شریعت نے شدت ظاہر کرنے کیلئے لفظ ِ شرک استعمال کیا ہوتاہے یا وہاں شرک سے مراد وہ صورت ہوتی ہے کہ جب اس فعل کے ساتھ کوئی ایسا ارادہ یا اعتقاد ملا ہو جو توحید کے منافی ہو۔ (جیسے غیر خدا کو سجدہ کرنا مطلقاً شرک نہیں لیکن اگر اس کے ساتھ ارادہ ٔ شرک موجود ہو تو یقینا شرک ہے۔) تو غیر شرک کو جہاں شرک کہا گیا ہو وہاں وہ حقیقی کفر و شرک مراد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے خارج اور بغیر توبہ کے مرنے پر دائمی جہنمی قرار پائے کیونکہ اہلسنّت کا اجماع ہے کہ مسلمان کبیرہ گناہ کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ قرآن و حدیث کی مذکورہ بالا قِسم کی تصریحات کو ہماری بیان کردہ تفصیل کے ملحوظ رکھے بغیر حقیقی کفر و شرک قرار دینا خارجیوں کا مردود مذہب ہے۔