Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 171 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّؕ-اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ ۚ۫-وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌؕ-اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْؕ-اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌۘ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا(171)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: اے اہلِ کتاب۔} اس سے پہلے والی آیات میں یہودیوں کی دین میں زیادتیوں اور ان کے جرائم کو بیان فرمایا، اب عیسائیوں کے دین میں غُلُوّ اور حد سے بڑھنے کے بارے میں بیان فرمایا جا رہا ہے۔
عیسائی چار بڑے فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے (1) یعقوبیہ۔ (2) ملکانیہ۔ (3) نسطوریہ۔ (4) مرقوسیہ۔ ان میں سے ہر ایک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں جداگانہ کفریہ عقیدہ رکھتا تھا۔ یعقوبیہ اور ملکانیہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کہتے تھے۔ نسطوریہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے جبکہ مرقوسیہ فرقے کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ تین میں سے تیسرے ہیں ، اور اس جملے کا کیا مطلب ہے اس میں بھی ان میں اختلاف تھا ، بعض تین اُقْنُوم (یعنی وجود) مانتے تھے اور کہتے تھے کہ باپ ،بیٹا، روحُ القدس تین ہیں اور باپ سے ذات، بیٹے سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورروحُ القدس سے ان میں حُلُول کرنے والی حیات مراد لیتے تھے گویا کہ اُن کے نزدیک اِلٰہ تین تھے اور اس تین کو ایک بتاتے تھے۔ بعض کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ناسُوتِیَّت (یعنی انسانیت) اور الُوہیت کے جامع ہیں ، ماں کی طرف سے اُن میں ناسوتیت آئی اور باپ کی طرف سے الوہیت آئی ’’تَعَالَی اللہُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا‘‘ (اللہ تعالیٰ ظالموں کی بات سے پاک ہے اور بہت ہی بلندو بالاہے)یہ فرقہ بندی عیسائیوں میں ایک یہودی نے پیدا کی جس کا نام بَوْلَسْ تھا ، اُس نے اُنہیں گمراہ کرنے کے لیے اس طرح کے عقیدوں کی تعلیم دی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۷۱، ۱ / ۴۵۴)
اس آیت میں اہلِ کتاب کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں افراط وتفریط سے باز رہیں ، انہیں خدا اور خدا کا بیٹا بھی نہ کہیں اور حلول و اِتّحاد کے عیب لگا کر ان کی تَنقیص بھی نہ کریں ، بلکہ ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے بیٹے ہیں ،ان کے لیے اس کے سوا اورکوئی نسب نہیں ، صرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کا ایک کلمہ ہیں جو رب تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی طرف بھیجا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص روح ہیں۔ لہٰذا ا نہیں چاہئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسولوں پرایمان لائیں اور تصدیق کریں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایک ہے، بیٹے اور اولاد سے پاک ہے اور اس کے رسولوں کی تصدیق کریں اور اس کی کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسولوں میں سے ہیں۔
{وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ:اور نہ کہو (کہ معبود) تین ہیں۔}بعض عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، بعض انہیں تیسرا خدا مانتے تھے اور بعض انہیں کو خدا مانتے تھے، ان تینوں فرقوں کی تردید کے لئے یہ آیتِ کریمہ اتری۔ لفظ ’’اللہُ‘‘ میں ایک فرقے کی تردید ہے۔’’وَاحِدٌ ‘‘میں دوسرے کی اور’’سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ‘‘ میں تیسرے کی۔ عقل مند انسان خود ہی غور کر لے آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے،جتنے انسان ہیں سب اسی کے بندے اور مملوک ہیں انہی میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی داخل ہیں اور جب یہ بھی بندے اور مملوک ہیں تو ان کا بیٹا اور بیوی ہونا کیسے مُتَصَوَّر ہو سکتا ہے؟ بلا شُبہ اللہ تعالیٰ ان سب بیہودہ باتوں سے پاک اور مُنَزّہ ہے۔