banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 24 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْۚ-كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْۚ-وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَؕ-فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةًؕ-وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(24)

ترجمہ: کنزالایمان اور حرام ہیں شوہر دار عورتیں مگر کافروں کی عورتیں جو تمہاری ملک میں آجائیں یہ اللہ کا نوشتہ ہے تم پر اور ان کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں کہ اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو قید لاتے نہ پانی گراتے تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو اور قرار داد کے بعد اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجائے تو اس میں گناہ نہیں بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور شوہر والی عورتیں تم پر حرام ہیں سوائے کافروں کی عورتوں کے جو تمہاری ملک میں آجائیں ۔ یہ تم پر اللہ کا لکھا ہواہے اور ان عورتوں کے علاوہ سب تمہیں حلال ہیں کہ تم انہیں اپنے مالوں کے ذریعے نکاح کرنے کو تلاش کرونہ کہ زنا کے لئے توان میں سے جن عورتوں سے نکاح کرناچاہو ان کے مقررہ مہر انہیں دیدو اور مقررہ مہر کے بعد اگر تم آپس میں (کسی مقدار پر) راضی ہوجاؤ تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ۔ بیشک اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ:اور شوہر والی عورتیں۔} ان عورتوں کا بیان جاری ہے جن سے نکاح حرام ہے، یہاں بتایا جا رہا ہے کہ وہ عورت جس کا شوہر ہو وہ دوسرے مرد پر اس وقت تک حرام ہے جب تک پہلے کے نکاح یا اس کی عدت میں ہو البتہ کافروں کی وہ عورتیں جن کے مسلمان مالک بن جائیں وہ ان کے لئے حلال ہیں ، اس کی صورت یہ ہے کہ میدانِ جنگ سے کفار کی عورتیں گرفتار ہوں اور ان کے شوہر دارُ الحَرْب میں ہوں تو بادشاہِ اسلام یا لشکر کامجاز امیر ان عورتوں کو مجاہدین میں تقسیم کر دے اور جو قیدی عورت جس مجاہد کے حصے میں آئے وہ اس کے لئے حلال ہے کہ ملک مختلف ہونے کی وجہ سے ان کا سابقہ نکاح ختم ہو گیا، وہ عورت اگر حاملہ ہے تو وضع حمل کے بعد ورنہ ایک ماہواری آجانے کے بعد اس سے ہم بستری کر سکتا ہے۔

جنگی قیدیوں سے متعلق اسلام کی تعلیمات:

             فی زمانہ جنگی قیدیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، ان پر جو ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں ان کا تَصَوُّر تک لَرزا دینے والا ہوتا ہے۔ اسلام نے جنگی قیدیوں کے مسئلے میں ایسا بہترین حل پیش کیا کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی، وہ یہ کہ جنگ میں قید ہونے والے مردوں کو غلام بنا لیا جائے اور عورتوں کو لونڈیاں ، پھر انہیں بھوکا پیاسا رکھنے، طرح طرح کی اذیتیں دینے یا دن رات ان سے جبری مزدوری لینے کی بجائے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی ہدایت کی، بلکہ فدیہ لئے بغیر یا فدیہ لے کر ہی سہی انہیں چھوڑ دینے کی ترغیب بھی دی، آزاد کرنے پر ثواب کی بے شمار بشارتیں سنائیں ، جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانا لازمی قرار نہیں دیا بلکہ مُکافاتِ عمل کے طور پر صرف اجازت دی کیونکہ اس دور میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کا رواج تھا جس کو اوپر بیان کردہ طریقوں کے مطابق تَدریجا ًختم کیا گیا۔

{وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ:اور ان کے علاوہ سب تمہارے لئے حلال ہیں۔} یعنی جن عورتوں سے نکاح حرام ہے ان کے علاوہ تمام عورتوں سے نکاح حلال ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ مزید کچھ عورتیں ایسی ہیں کہ جن کا ذکر مذکورہ بالا آیات میں اگرچہ نہیں مگر ان سے نکاح حرام ہے جیسے چار عورتوں کے نکاح میں ہوتے ہوئے پانچویں سے نکاح، مُشرکہ عورت سے نکاح، تین طلاقیں دینے کے بعد حلالہ سے پہلے اسی عورت سے دوبارہ نکاح، اسی طرح پھوپھی بھتیجی، خالہ بھانجی کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا یونہی طلاق یا وفات کی عدت میں نکاح کرنا حرام ہے البتہ ان سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام نہیں ، نکاح میں جو رکاوٹ ہے وہ ختم ہونے کے بعد ان سے نکاح ہو سکتا ہے۔

{اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ:تم اپنے مالوں کے ذریعے تلاش کرو۔} عورت سے نکاح مہر کے بدلے کیا جائے اور اس نکاح سے مقصود محض لذت نفس اور شہوت پورا کرنا نہ ہو بلکہ اولاد کا حصول، نسل کی بقا اور اپنے نفس کو حرام سے بچانا مقصود ہو۔ یہاں زانی کو تنبیہ کی جا رہی ہے کیونکہ اس کے پیشِ نظر یہ باتیں نہیں ہوتیں بلکہ اس کا مقصود صرف نفسانی خواہش کی تکمیل ہوتا ہے اور یوں وہ اپنے نطفہ ا ور مال کو ضائع کرکے دین و دنیا کے خسارے میں گرفتار ہو جاتا ہے۔

مہر کے چندضروری مسائل:

            اس آیت میں مہر کا ذکر ہوا اس مناسبت سے یہاں مہر سے متعلق چند ضروری مسائل ذکر کئے جاتے ہیں :

(1)…مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہے، چاندی میں ا س کا وزن دو تولے ساڑھے سات ماشے ہے، اس کی جو قیمت بنتی ہو وہ مہر کی کم از کم مقدار ہے، زیادہ کی کوئی حد نہیں باہمی رضا مندی سے جتنا چاہے مقرر کیا جاسکتا ہے لیکن یہ خیال رکھیں کہ مہر اتنا مقرر کریں جتنا دے سکتے ہوں۔

(2)…مہر کا مال ہونا ضروری ہے اور جو چیز مال نہیں وہ مہر نہیں بن سکتی، مثلا ًمہر یہ ٹھہرا کہ شوہر عورت کو قرآنِ مجید یا علمِ دین پڑھا دے گا تواس صورت میں مہرِ مثل واجب ہو گا۔

(3)… نکاح میں مہر کا ذکر ہی نہ ہوا یا مہر کی نفی کر دی کہ مہر کے بغیر نکاح کیا تو نکاح ہو جائے گا اور اگر خلوتِ صحیحہ ہو گئی یا دونوں میں سے کوئی مر گیا اور نکاح کے بعد میاں بیوی میں کوئی مہر طے نہیں پایا تھا تو مہرِ مثل واجب ہے ورنہ جو طے پایا تھا وہ واجب ہے۔ مہر سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت حصہ 7کا مطالعہ کیجئے۔

{فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّتوان میں سے جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہو۔} یعنی جن عورتوں سے تم شرعی نکاح کر کے جماع وغیرہ کافائدہ حاصل کرنا چاہو تو انہیں ان کے مقرر کردہ مہر ادا کرو۔

عورت سے نفع اٹھانے کی جائز صورتیں :

            یاد رہے کہ اسلام میں عورت سے نفع اٹھانے کی صرف دو صورتیں جائز ہیں جو قرآنِ پاک میں بیان کی گئی ہیں : (1) شرعی نکاح کے ذریعے۔ (2) عورت جس صورت میں لونڈی بن جائے۔ لہٰذا اس کے علاوہ ہر صورت حرام ہے۔ شروعِ اسلام میں کچھ وقت کیلئے نکاح سے کچھ ملتا جلتا معاہدہ کرکے فائدہ اٹھانے کی اجازت تھی لیکن بعد میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام فرما دیا۔ جیساکہ حضرت سَبُرَہ جُہَنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے (متعہ کی صورت میں ) نفع اٹھانے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کر دیا ہے تو جس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو وہ اسے چھوڑ دے اور جو انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ نہ لو۔(مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعۃ وبیان انّہ ابیح ثمّ نسخ۔۔۔ الخ، ص۷۲۹، الحدیث: ۲۱(۱۴۰۶)) 

اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ غزوۂ خیبر کے موقع پرنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے متعہ سے منع فرما دیا۔ (ترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاء فی نکاح المتعۃ، ۲ / ۳۶۵، الحدیث: ۱۱۲۴)