banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 46 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اسْمَعْ وَ انْظُرْنَا لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَقْوَمَۙ-وَ لٰـكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا(46)

ترجمہ: کنزالایمان کچھ یہودی کلاموں کو ان کی جگہ سے پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے سنا اور نہ مانا اور سنئے آپ سنائے نہ جائیں اور راعنا کہتے ہیں زبانیں پھیر کر اور دین میں طعنہ کے لیے اور اگر وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا اور حضور ہماری بات سنیں اور حضور ہم پر نظر فرمائیں تو ان کے لئے بھلائی اور راستی میں زیادہ ہوتا لیکن ان پر تو اللہ نے لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو یقین نہیں رکھتے مگر تھوڑا۔ ترجمہ: کنزالعرفان یہودیوں میں کچھ وہ ہیں جو کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں :ہم نے سنا اور مانا نہیں اور آپ سنیں ، آپ کو نہ سنایا جائے اور ’’راعنا‘‘ کہتے ہیں زبانیں مروڑ کراور دین میں طعنہ کے لئے ،اور اگر وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا اور حضور ہماری بات سنیں اور ہم پر نظر فرمائیں تو یہ ان کے لئے بہتر اور زیادہ درست ہوتا لیکن ان پر تو اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے لعنت کردی تو وہ بہت تھوڑا یقین رکھتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا: یہودیوں میں کچھ وہ ہیں۔} آیت کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ بہت سے یہودیوں کی خصلت و عادت نہایت ہی بری اور قبیح ہے، ان میں کئی بری عادتیں ہیں : پہلی یہ کہ توریت شریف میں اللہ تعالیٰ نے حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان میں جو بیان فرمایاہے ، یہودی ان کلمات کو بدل دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  انہیں کچھ حکم فرماتے ہیں تویہ زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم نے مان لیا لیکن دل سے کہتے ہیں کہ ہم نے قبول نہیں کیا۔ تیسری بات یہ کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں کئی طرح سے منافقت کرتے ہیں جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے ایسے جملے بولتے ہیں جن کے دو معنیٰ بنتے ہوں ، ایک اچھے اور دوسرے برے۔ اور ان یہودیوں کا طریقہ یہ ہے کہ ظاہراً تو اچھے معنی کا تأثُّردیتے ہیں لیکن دل میں وہی خبیث معنی مراد لیتے ہیں جیسے کہتے ہیں کہ سنئے اور آپ کو نہ سنایا جائے۔ ’’نہ سنایا جائے‘‘ سے ظاہری معنی یہ نکلتا کہ کوئی ناگوار بات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سننے میں نہ آئے اور دوسرا معنی جو وہ مراد لیتے یہ ہوتا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سننا نصیب نہ ہو ۔ اور اسی کی دوسری مثال’’رَاعِنَا ‘‘ کا کلمہ ہے جس کا ظاہری معنی ’’ہماری رعایت فرمائیے‘‘ ہے اور یہودی اس کا معنی وہ لیتے جو شانِ مبارک کے لائق نہ ہو حالانکہ اس لفظ کے استعمال سے منع فرما دیا گیا تھا۔ پھر اس کے ساتھی یہودی اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے کہ ہم تو محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو برا بھلا کہتے ہیں ،اگر آپ نبی ہوتے تو آپ اِس کو جان لیتے ۔اللہ تعالیٰ نے اُن کے اندر کی خباثت کو یہاں ظاہر فرما دیا۔ اس  سے معلوم ہوا کہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم پر طعن کرنا درحقیقت دین ِاسلام پر طعن کرنا ہے اور یہ یہودیوں کا طریقہ ہے ۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ بھی اہلِ ادب کا طریقہ اختیار کرتے اور انہی کی طرح کہتے کہ ’’یا رسولَ اللہ ! ہم نے سنا اور دل و جان سے تسلیم کیا، حضور ! ہماری بات سنئے اور ہم پر نظر ِکرم فرمائیں ‘‘تو یہ ان کیلئے دنیا وآخرت ہر اعتبار سے بہتر ہوتا۔ لیکن چونکہ یہ ملعون ہیں لہٰذا انہیں ادب کی توفیق نہیں ہوگی۔