banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 49 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْؕ-بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا(49)

ترجمہ: کنزالایمان کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو خود اپنی ستھرائی بیان کرتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہے ستھرا کرے اور ان پر ظلم نہ ہوگا دانۂ خرما کے ڈورے برابر۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا تم نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جو خود اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتاہے پاکیزہ بنا دیتا ہے۔ اور ان پر کھجور کے اندر کی جھلی کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ: جو خود اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔} یہ آیت یہود و نصارٰی کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنے آپ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا بیٹا اور اُس کا پیارا بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہود و نصارٰی کے سوا کوئی جنت میں نہ داخل ہوگا اور یوں اپنی تعریف آپ کرتے تھے اور وہ بھی جھوٹی۔

خود پسندی کی مذمت:

اس آیتِ کریمہ میں خود پسندی کی مذمت کا بیان ہے۔ خود پسندی یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے دینی یا دنیاوی کوئی نعمت عطا کی ہو وہ یہ تَصوُّر کرے کہ ا س نعمت کا ملنا میری ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے اور اس پر ناز کرنے لگے۔(کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، حقیقت عجب وادلال، ۲ / ۷۲۵)

خود پسندی ایک مذموم باطنی مرض ہے اور فی زمانہ مسلمانوں کی اکثریت ا س میں مبتلا نظر آتی ہے۔ اپنے علم وعمل پر ناز کرنا، کثرت عبادت پر اترانا، عزت، منصب اور دولت پر نازاں ہونا، فنی مہارت پر کسی کی انگشت نمائی برداشت نہ کرسکنا، کسی اور کو خاطر میں ہی نہ لانا بہت عام ہے۔ ایسے حضرا ت کو چاہئے کہ ِان روایات کا بغور مطالعہ کریں :

(1)…رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی نیک عمل پر اپنی تعریف کی تو اس کا شکر ضائع ہوا اور عمل برباد ہو گیا۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، العجب، ۲ / ۲۰۶، الجزء الثالث، الحدیث: ۷۶۷۴)

(2)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تین چیزیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں : (1) لالچ جس کی اطاعت کی جائے (2) خواہش جس کی پیروی کی جائے (3) بندے کا اپنے عمل کو پسند کرنا یعنی خود پسندی۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۴ / ۲۱۲، الحدیث: ۵۷۵۴)

(3)…نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے سراقہ! کیا میں تمہیں جنتی اور جہنمی لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟عرض کی: یا رسولَ اللہ ! ضرور بتائیے۔ ارشاد فرمایا :’’ہر سختی کرنے والا، اِترا کر چلنے والا، اپنی بڑائی چاہنے والا جہنمی ہے جبکہ کمزور اور مغلوب لوگ جنتی ہیں۔(معجم الکبیر، علی بن رباح عن سراقۃ بن مالک، ۷ / ۱۲۹، الحدیث: ۶۵۸۹)