Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 58 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(58)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے۔} یہاں آیت میں دو حکم بیان کئے گئے ۔ پہلا حکم یہ کہ امانتیں ان کے حوالے کردو جن کی ہیں اور دوسرا حکم یہ ہے کہ جب فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔
اسلامی تعلیمات کے شاہکار:
یہ دونوں حکم اسلامی تعلیمات کے شاہکار ہیں اور امن و امان کے قیام اور حقوق کی ادائیگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں کی کچھ تفصیل یوں ہے:
(1)…امانت کی ادائیگی: امانت کی ادائیگی میں بنیادی چیز تو مالی معاملات میں حقدار کو اس کا حق دیدینا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں امانت کی ادائیگی میں داخل ہیں۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو مسلمانوں کا حاکم بنا پھر اس نے ان پر کسی ایسے شخص کو حاکم مقرر کیاجس کے بارے میں یہ خود جانتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کتاب و سنت کا عالم مسلمانوں میں موجود ہے تو اُس نے اللہ تعالیٰ، اُس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی۔(معجم الکبیر، عمرو بن دینار عن ابن عباس، ۱۱ / ۹۴، الحدیث: ۱۱۲۱۶)
(2)… انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا: نظامِ عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے۔ فریقَین میں سے اصلاً کسی کی رعایت نہ کی جائے۔ علماء نے فرمایا کہ حاکم کو چاہئے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے۔ (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے، دوسرے کو بھی دے۔ (2) نشست دونوں کو ایک جیسی دے۔ (3) دونوں کی طرف برابر مُتَوَجِّہ رہے۔ (4) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے۔ (5) فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دِلائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ انصاف کرنے والوں کو قربِ الہٰی میں نورکے منبر عطا کئے جائیں گے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۵، الحدیث: ۱۸(۱۸۲۷))
قاضی شریح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا عادلانہ فیصلہ:
مسلمان قاضیوں نے اسلام کے عادلانہ نظام اور برحق فیصلوں کی ایسی عظیمُ الشان مثالیں قائم کی ہیں کہ دنیا ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتی، اس موقع پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے: جنگِ صفین کے موقع پرحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی ایک زِرَہ گم ہو گئی، بعد میں جب آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کوفہ تشریف لائے تو وہ زِرہ ایک یہودی کےپاس پائی، اسے فرمایا: یہ زِرَہ میری ہے، میں نے تمہیں بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے۔ یہودی نے کہا: یہ زِرہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے۔ فرمایا: ہم قاضی صاحب سے فیصلہ کرواتے ہیں ، چنانچہ یہ قاضی شُرَیح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عدالت میں پہنچے ، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے ۔قاضی شریح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: اے امیرُ المؤمنین! ارشاد فرمائیے۔ فرمایا: اس یہودی کے قبضے میں جو زِرہ ہے وہ میری ہے، میں نے اسے نہ بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے۔ قاضی شریح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہودی سے فرمایا: اے یہودی! تم کیا کہتے ہو؟ یہودی بولا: یہ زِرَہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے۔ قاضی صاحب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے کہا: اے امیر المؤمنین ! کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے؟ فرمایا: ہاں ، قنبر اور حسن دونوں اس بات کے گواہ ہیں۔ قاضی صاحب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: (کہ حسن آپ کے بیٹے ہیں اور شرعی اصول یہ ہے کہ) بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز نہیں۔ جب اس یہودی نے قاضی صاحب کا عادلانہ فیصلہ سنا تو حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا: اے امیر المومنین! آپ مجھے قاضی صاحب کے پاس لے کر آئے اور قاضی صاحب نے آپ ہی کے خلاف فیصلہ کر دیا! میں گواہی دیتا ہوں کہ یہی مذہب حق ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، یہ زِرہ آپ ہی کی ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْماس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے ،وہ زِرہ اور ایک گھوڑا اُسے تحفے میں دے دیا۔(تاریخ الخلفاء، ابو السبطین: علی بن ابی طالب، فصل فی نبذ من اخبار علی۔۔۔ الخ، ص۱۸۴-۱۸۵، الکامل فی التاریخ، سنۃ اربعین، ذکر بعض سیرتہ، ۳ / ۲۶۵)