banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 60 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖؕ-وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(60)

ترجمہ: کنزالایمان کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمان لائے اس پر جو تمہاری طرف اترا اور اس پر جو تم سے پہلے اترا پھر چاہتے ہیں کہ شیطان کو اپنا پنچ بنائیں اور ان کو تو حکم یہ تھا کہ اسے اصلاً نہ مانیں اور ابلیس یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور بہکادے ۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اُس پر ایمان لے آئے ہیں جو تمہاری طرف نازل کیا گیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا ، وہ چاہتے ہیں کہ فیصلے شیطان کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں تو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسے بالکل نہ مانیں اورشیطان یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں بھٹکاتا رہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمان لے آئے ہیں } شانِ نزول: بِشرنامی ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہوگیا۔ یہودی نے کہا چلومحمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فیصلہ کروالیتے ہیں۔منافق نے خیال کیا کہ رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو کسی کی رعایت نہیں کریں گے اور اس سے میرا مطلب حاصل نہ ہوگا، اس لئے اُس نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود یہ کہا کہ کعب بن اشرف یہودی کو پنچ بناؤ (یہاں آیت میں طاغوت سے اس کعب بن اشرف کے پاس فیصلہ لے جانا مراد ہے) یہودی جانتا تھا کہ کعب بن اشرف رشوت خور ہے، اِس لئے اُس نے یہودی ہونے کے باوجو د اُس کو پنچ تسلیم نہ کیا ، ناچار منافق کو فیصلہ کے لئے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حضور آنا پڑا۔ رسولِ صادق و امین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو فیصلہ دیا وہ یہودی کے موافق ہوا اور منافق کے خلاف۔ یہاں سے فیصلہ سننے کے بعد پھر منافق اُس یہودی کومجبور کرکے حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس لے آیا، یہودی نے آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کیا کہ میرا اور اس کا معاملہ آپ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طے فرما چکے لیکن یہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے راضی نہیں بلکہ آپ سے فیصلہ چاہتا ہے۔ حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ہاں میں ابھی آکر اس کا فیصلہ کرتا ہوں ،یہ فرما کر مکان میں تشریف لے گئے اور تلوار لا کر اُس کو قتل کردیا اور فرمایا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے راضی نہ ہو اُس کا میرے پاس یہی فیصلہ ہے۔اس منافق کے ورثاء حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں آئے لیکن اِن آیات میں حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تائید نازل ہوگئی تھی لہٰذا ورثاء کے مطالبے کو مُسترد کردیا گیا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۱ / ۳۹۷)