banner image

Home ur Surah An Nisa ayat 77 Translation Tafsir

اَلنِّسَآء

An Nisa

HR Background

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِۚ-اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا(76)اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَۚ-فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةًۚ-وَ قَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَۚ-لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍؕ-قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌۚ-وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى- وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا(77)

ترجمہ: کنزالایمان ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو شیطان کے دوستوں سے لڑو بے شک شیطان کا داؤ کمزور ہے۔ کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا اپنے ہاتھ روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں بعضے لوگوں سے ایسا ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرے یا اس سے بھی زائد اور بولے اے رب ہمارے تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا تھوڑی مدت تک ہمیں اور جینے دیا ہوتا، تم فرما دو کہ دنیا کا برتنا تھوڑا ہے اور ڈر والوں کے لیے آخرت اچھی اور تم پر تاگے برابر ظلم نہ ہوگا۔ ترجمہ: کنزالعرفان ایمان والے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو تم شیطان کے دوستوں سے جہاد کرو بیشک شیطان کا مکرو فریب کمزور ہے۔ کیا تم نے ان لوگوں کونہ دیکھا جن سے کہا گیا اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایک گروہ لوگوں سے ایسے ڈرنے لگا جیسے اللہ سے ڈرنا ہوتاہے یا اس سے بھی زیادہ اورکہنے لگے: اے ہمارے رب!تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟ تھوڑی سی مدت تک ہمیں اور مہلت کیوں نہ عطا کردی؟ اے حبیب! تم فرما دو کہ دنیا کاسازو سامان تھوڑا ساہے اور پرہیز گاروں کے لئے آخرت بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابربھی ظلم نہ کیا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ: کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یوں ہے کہ مشرکین مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو بہت ایذائیں دیتے تھے ۔ہجرت سے پہلے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ہمیں کافروں سے لڑنے کی اجازت دیجئے، انہوں نے ہمیں بہت ستایا ہے اور بہت ایذائیں دی ہیں۔ حضورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اُن کے ساتھ جنگ کرنے سے ابھی ہاتھ روک کر رکھو اور ابھی صرف نماز اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اسی کے متعلق فرمایا کہ کیا تم نے ان لوگوں کونہ دیکھا جن سے شروعِ اسلام میں مکہ مکرمہ میں کہا گیا کہ ابھی جہاد سے اپنے ہاتھ روکے رکھو اور ابھی صرف نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو ۔  (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۷۷، ۱ / ۴۰۳)

             لیکن پھر جب مدینہ منورہ میں ان پر جہاد فرض کیا گیا تو وہ اس وقت طبعی خوف کا شکار ہوگئے جو انسانی فطرت ہے اور حالت یہ تھی کہ ان میں ایک گروہ لوگوں سے ایسے ڈرنے لگا جیسے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنا ہوتا ہے یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہی خوفزدہ تھا اور کہنے لگے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟ اس کی حکمت کیا ہے ؟

یہ سوال حکمت دریافت کرنے کے لئے تھا، اعتراض کرنے کیلئے نہیں۔اسی لئے اُن کو اس سوال پر توبیخ وزجرنہ فرمایا گیا بلکہ تسلی بخش جواب عطا کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان سے فرما دو کہ دنیا کا ساز و سامان تھوڑا ساہے، فنا ہونے والا ہے جبکہ پرہیز گاروں کے لئے آخرت تیار کی گئی ہے اور وہی ان کیلئے بہتر ہے ۔ لہٰذا جہاد میں خوشی سے شرکت کرو۔