Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 8 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(8)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى: اور جب تقسیم کرتے وقت رشتہ دار آجائیں۔} جن افراد کا وراثت میں حصہ ہے ان کا بیان تو تفصیل کے ساتھ بعد کی آیتوں میں مذکور ہے ان کے علاوہ دیگر رشتے داروں اور محتاج افراد کے بارے میں فرمایا کہ انہیں بھی وراثت تقسیم کرنے سے پہلے مال میں سے کچھ دیدیا کرو اور ان سے اچھی بات کہو جیسے یہ کہ یہ مال تودرحقیقت وارثوں کا حصہ ہے لیکن تمہیں ویسے ہی تھوڑا سا دیا گیا ہے، یونہی ان کیلئے دعا کردی جائے۔
وراثت تقسیم کرنے سے پہلے غیر وارثوں کو دینا :
اس آیت میں غیر وارثوں کو وراثت کے مال میں سے کچھ دینے کا جوحکم دیا گیا ہے، یہ دینا مستحب ہے ۔ امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مروی ہے حضرت عبیدہ سلمانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے میراث تقسیم کی تو اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے ایک بکری ذبح کروا کر کھانا پکوایا پھر یتیموں میں تقسیم کر دیا اور کہا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں یہ سب خرچہ اپنے مال سے کرتا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۸، ۱ / ۳۴۸)
تفسیر قرطبی میں یوں ہے کہ’’یہ عمل عبیدہ سلمانی اور امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما دونوں نے کیا۔ (قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۳۶، الجزء الخامس)
در منثور میں ایک روایت یہ ہے کہ’’حضرت عبد الرحمٰن بن ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے جب اپنے والد کی میراث تقسیم کی تو اُسی مال سے ایک بکری ذبح کروا کر کھانا پکوایا، جب یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کی بارگاہ میں عرض کی گئی تو انہوں نے فرمایا: عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے قرآن پر عمل کیا۔(در منثور، النساء، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۴۴۰)
اس مستحب حکم پر یوں بھی عمل ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات کوئی بیٹا یتیم بچے چھوڑ کر فوت ہوجاتا ہے اور اس کے بعد باپ کا انتقال ہوتا ہے تو وہ یتیم بچے چونکہ پوتے بنتے ہیں اور چچا یعنی فوت ہونے والے کا دوسرا بیٹا موجود ہونے کی وجہ سے یہ پوتے داد ا کی میراث سے محروم ہوتے ہیں تو دادا کو چاہیے کہ ایسے پوتوں کو وصیت کر کے مال کا مستحق بنا دے اور اگر دادا نے ایسا نہ کیا ہو تو وارثوں کو چاہیے کہ اوپر والے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے حصہ میں سے اسے کچھ دے دیں۔ اس حکم پر عمل کرنے میں مسلمانوں میں بہت سستی پائی جاتی ہے بلکہ اس حکم کا علم ہی نہیں ہوتا۔ البتہ یہ یاد رہے کہ نابالغ اور غیر موجود وارث کے حصہ میں سے دینے کی اجازت نہیں۔