Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 87 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِؕ-وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا(87)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا:اوراللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سےزیادہ کس کی بات سچی یعنی اس سے زیادہ سچا کوئی نہیں اس لیے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کاجھوٹ بولنا ناممکن و محال ہے کیونکہ جھوٹ عیب ہے اور ہر عیب اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے محال ہے، وہ جملہ عیوب سے پاک ہے۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی کلام میں جھوٹ کا ممکن ہونا ذاتی طور پر محال ہے اوراللہ تعالیٰ کی تمام صفات مکمل طور پر صفاتِ کمال ہیں اور جس طرح کسی صفتِ کمال کی اس سے نفی ناممکن ہے اسی طرح کسی نقص و عیب کی صفت کا ثبوت بھی اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فرمان
وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اوراللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔
ا س عقیدے کی بہت بڑی دلیل ہے ،چنانچہ اس آیت کے تحت علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں اِستِفہامِ انکاری ہے یعنی خبر، وعدہ اور وعید کسی بات میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا نہیں کہ اس کا جھوٹ تو بِالذَّات محال ہے کیونکہ جھوٹ خود اپنے معنی ہی کی رو سے قبیح ہے کہ جھوٹ واقع کے خلاف خبر دینے کا نام ہے۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۲۴۳)
علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس آیت میں اس سے انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا ہو کیونکہ اس کی خبر تک تو کسی جھوٹ کو کسی طرح راہ ہی نہیں کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے۔ (بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۸۷، ۲ / ۲۲۹)
نیز اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗ (بقرہ:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اللہ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرے گا۔
اس آیت کے تحت امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر وعدہ اور وعید میں جھوٹ سے پاک ہے ،ہمارے اصحاب اہلِ سنت و جماعت اس دلیل سے کذبِ الہٰی کو ناممکن جانتے ہیں کیونکہ جھوٹ صفتِ نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے اور مُعتَزِلہ اس دلیل سے اللہ تعالیٰ کے جھوٹ کو مُمْتَنِع مانتے ہیں کیونکہ جھوٹ فِی نَفْسِہٖ قبیح ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا صادر ہونا محال ہے۔ الغرض ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا جھوٹ بولنا اصلاً ممکن ہی نہیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۸۰، ۱ / ۵۶۷، ملخصاً)
شاہ عبدُ العزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کی خبر اَزلی ہے ، کلام میں جھوٹ ہونا عظیم نقص ہے لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ہر گز راہ نہیں پا سکتا کہ اللہ تعالیٰ تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، اس کے حق میں خبر کے خلاف ہونا سراپا نقص ہے۔ (تفسیر عزیزی(مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ:۸۰، ۲ / ۵۴۷، ملخصاً)
اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًاؕ-لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(انعام:۱۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور سچ اور انصاف کے اعتبار سے تیرے رب کے کلمات مکمل ہیں۔ اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں :یہ آیت ا س چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بہت سی صفتوں کے ساتھ موصوف ہے، ان میں سے ایک صفت اس کاسچا ہو نا ہے اور ا س پر دلیل یہ ہے کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے دلائل کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کذب کو محال مانا جائے ۔(تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۵ / ۱۲۵)
نیز جھوٹ فِی نَفسِہٖ دو باتوں سے خالی نہیں ، یا تو وہ نقص ہو گا یا نہیں ہو گا اور یہ بات ظاہر ہے کہ جھوٹ ضرور نقص ہے اور جب یہ نقص ہے تو بالاتفاق اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہو گیا کیونکہ وہ ہر نقص و عیب سے پاک ہے۔ دوسری صورت میں اگر جھوٹ کو نقص و عیب نہ بھی مانا جائے تو بھی یہ اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے کیونکہ اگر جھوٹ نقص نہیں تو کمال بھی نہیں اوراللہ تعالیٰ نہ صرف نقص و عیب سے پاک ہے بلکہ وہ ہر اس شئے سے بھی پاک ہے جو کمال سے خالی ہو اگرچہ وہ نقص وعیب میں سے نہ بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت صفتِ کمال ہے اور جس میں کوئی کمال ہی نہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفت کس طرح ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ لوگوں کے جھوٹ بولنے پر قادر ہونے اور اللہ تعالیٰ کے لئے جھوٹ ناممکن و محال ہونے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ لوگوں کی قدرت مَعَاذَاللہ ،اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بڑھ گئی یعنی یہ کہنا کہ بندہ جھوٹ بول سکے اور اللہ تعالیٰ جھوٹ نہ بول سکے ، اس سے لازم آتا ہے کہ انسان کی قدرت مَعَاذَاللہ ، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بڑھ جائے گئی، یہ بات سراسر غلط ہے نیز اگر یہ بات سچی ہو کہ آدمی جو کچھ کر سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ بھی کر سکتا ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جس طرح نکاح کرنا اور بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ انسان کی قدرت میں ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی مَعَاذَاللہ یہ کر سکتا ہے، یونہی اگر وہ بات سچی ہوتو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جس طرح آدمی کھانا کھانے، پانی پینے، اپنے آپ کو دریا میں ڈبو دینے، آگ سے جلانے، خاک اور کانٹوں پر لٹانے کی قدرت رکھتا ہے تو پھر یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ بھی اپنے لئے کر سکتا ہو گا۔ ان صورتوں میں انسان ہر طرح خدائی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سب باتیں اپنے لئے کر سکتا ہو تووہ ناقص و محتاج ہوا اور ناقص و محتاج خدا نہیں ہو سکتا اور اگر نہ کر سکا تو عاجز ٹھہرے گا اور کمالِ قدرت میں آدمی سے کم ہو جائے گا اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا۔ جبکہ ہمارا سچا خدا سب عیبوں سے اور محال پر قدرت کی تہمت سے پاک اور مُنَزَّہ ہے،نہ کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر ہے نہ کسی کی قدرت ا س کی قدرت کے ہمسر، نہ اپنے لئے کسی عیب و نقص پر قادر ہونا اس کی قُدُّوسی شان کے لائق ہے۔
نوٹ:اس مسئلے پر تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 15ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ان رسائل کا مطالعہ فرمائیں: (1)سُبْحٰنُ السُّبُّوْحْ عَنْ عَیْبِ کِذْبٍ مَقْبُوْحْ (جھوٹ جیسے بد ترین عیب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاک ہونے کا بیان )۔ (2) دَامَانِ بَاغِ سُبْحٰنِ السُّبُّوْحْ۔(رسالہ سُبْحٰنُ السُّبُّوح کے باغ کا دامن) (3)اَلْقَمْعُ الْمُبِینْ لِآمَالِ الْمُکَذِّبِینْ(اللہ تعالیٰ کے لئے جھوٹ ممکن ماننے والوں کے استدلال کا رد)۔