Home ≫ ur ≫ Surah An Nisa ≫ ayat 92 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــٴًـاۚ-وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــٴًـا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْاؕ-فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍؕ-وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍۚ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ٘-تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(92)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا: اور کسی مسلمان کیلئے دوسرے مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں۔}یہ آیت ِ مبارکہ عیاش بن ربیعہ مخزومی کے بارے میں نازل ہوئی ۔ ان کا واقعہ یوں ہے کہ وہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلمان ہوگئے اور گھر والوں کے خوف سے مدینہ طیبہ جا کر پناہ گزیں ہوگئے۔ ان کی ماں کو اس سے بہت بے قراری ہوئی اور اس نے حارث اور ابوجہل اپنے دونوں بیٹوں سے جو عیاش کے سوتیلے بھائی تھے یہ کہا کہ خدا کی قسم نہ میں سایہ میں بیٹھوں گی اور نہ کھانا چکھوں گی اور نہ پانی پیوں گی جب تک تم عیاش کو میرے پاس نہ لے کر آؤ۔ وہ دونوں حارث بن زید کو ساتھ لے کر تلاش کے لیے نکلے اور مدینہ طیبہ پہنچ کر عیاش کو پالیا اور ان کوماں کے جزع فزع کرنے، بے قراری اور کھانا پینا چھوڑنے کی خبر سنائی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر یہ عہد کیا کہ ہم دین کے متعلق تجھ سے کچھ نہ کہیں گے، بس تم مکہ مکرمہ چلو۔ اس طرح وہ عیاش کو مدینہ سے نکال لائے اور مدینہ سے باہر آکر اس کو باندھا اور ہر ایک نے سو سو کوڑے مارے پھر ماں کے پاس لائے تو ماں نے کہا میں تیری مشکیں نہ کھولوں گی جب تک تو اپنا دین ترک نہ کرے گا، پھر عیاش کو دھوپ میں بندھا ہوا ڈال دیا اور ان مصیبتوں میں مبتلا ہو کر عیاش نے ان کا کہا مان لیا اور اپنا دین ترک کردیا۔ اس پر حارث بن زید نے عیاش کو ملامت کی اور کہا تواسلام پر تھا، اگر یہ حق تھا تو تو نے حق کو چھوڑ دیا اور اگر باطل تھا توتو باطل دین پر رہا۔ یہ بات عیاش کو بڑی ناگوار گزری اور عیاش نے حارث سے کہا کہ میں تجھے اکیلا پاؤں گا تو خدا کی قسم ،ضرور تمہیں قتل کردوں گا اس کے بعد عیاش اسلام لے آئے اور انہوں نے مدینہ طیبہ ہجرت کرلی اور ان کے بعد حارث بھی اسلام لے آئے اور وہ بھی ہجرت کرکے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پہنچ گئے لیکن اس روز عیاش موجود نہ تھے اور نہ انہیں حارث کے اسلام کی اطلاع ہوئی۔ قباء شریف کے قریب عیاش نے حارث کو دیکھ لیا اور قتل کردیا تو لوگوں نے کہا، اے عیاش! تم نے بہت برا کیا، حارث اسلام لاچکے تھے ۔اس پر عیاش کو بہت افسوس ہوا اور انہوں نے رحمت ِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کیا اور کہا کہ مجھے قتل کے وقت تک ان کے اسلام کی خبر ہی نہ ہوئی اس پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی اور کفارے کی صورت بیان کی گئی۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱ / ۳۶۸)
{وَ مَنْ قَتَلَ: اور جو قتل کرے۔} یہاں آیت میں قتل کی چار صورتوں کا بیان ہے اور پھر تین صورتوں میں کفارے کا بیان ہے۔
پہلی صورت یہ کہ مسلمان کا کسی دوسرے مسلمان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے۔
دوسری صورت یہ کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو غلطی سے قتل کردے جیسے شکار کو مار رہا ہومگر گولی مسلمان
کو لگ جائے یا کسی کو حربی کافر سمجھ کر مارا لیکن قتل کے بعد معلوم ہوا کہ مقتول تو مسلمان ہے۔ اس صورت میں قاتل پر ایک غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا لازم ہے اور اس کے ساتھ وہ دِیت بھی ادا کرے گا جومقتول کے وارثوں کو دی جائے گی اوروہ اسے میراث کی طرح تقسیم کرلیں۔دِیت مقتول کے ترکہ کے حکم میں ہے، اس سے مقتول کا قرضہ بھی ادا کیا جائے گا اور وصیت بھی پوری کی جائے گی۔ ہاں اگر مقتول کے وُرثاء دیت معاف کردیں تو وہ معاف ہوجائے گی۔
تیسری صورت یہ ہے کہ اگر وہ مقتول دشمن قوم سے ہو لیکن وہ مقتول بذات ِخود مسلمان ہو تو صرف ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا لازم ہے اور دیت وغیرہ کچھ لازم نہ ہوگی۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ اگر مقتول ذِمّی ہو یا مسلمان حکومت کی اجازت سے مسلمان ملک میں آیا ہو جسے مُستامن کہتے ہیں تو اس کو قتل کرنے کی صورت میں اس کے گھر والوں کو دیت دی جائے گی اور ایک مسلمان غلام یا لونڈی کو آزاد کیا جائے گاالبتہ اگر غلام لونڈی نہ ملے جیسے ہمارے زمانے میں غلام لونڈی ہیں ہی نہیں تو پھر دومہینے کے مسلسل روزے رکھے جائیں گے۔ یہ یاد رہے کہ قتل خطا کے کفارہ میں کافر غلام آزاد نہ کیا جائے گا۔ باقی کفّارات میں حنفی مذہب میں ہر طرح کا غلام آزاد کر سکتے ہیں جیسے روزے کا یا ظہار کا کفار ہ ہو۔