Home ≫ ur ≫ Surah An Noor ≫ ayat 11 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْؕ-لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْؕ-بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْؕ-لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِۚ-وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(11)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ: بیشک جو بڑا بہتان لائے ہیں ۔} یہ آیت اور ا س کے بعد والی چند آیتیں اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی شان میں نازل ہوئیں جن میں آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی عفت و عصمت کی گواہی خود ربُّ العالَمین نے دی اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا پر تہمت لگانے والے منافقین کو سزا کا مژدہ سنایا۔
واقعہ ِاِفک:
آیت میں مذکور بڑے بہتان سے مراد اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا پر تہمت لگانا ہے۔ اس کا واقعہ کچھ یوں ہوا کہ 5 ہجری میں غزوہ بنی مُصْطَلَقْ سے واپسی کے وقت قافلہ مدینہ منورہ کے قریب ایک پڑاؤ پر ٹھہرا،تواُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا ضرورت کے لئے کسی گوشے میں تشریف لے گئیں ، وہاں آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کاہار ٹوٹ گیا تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اس کی تلاش میں مصروف ہوگئیں ۔ اُدھر قافلے والوں نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا مَحمِل شریف اونٹ پر کَس دیا اور انہیں یہی خیال رہا کہ اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اس میں ہیں ، اس کے بعد قافلہ وہاں سے کوچ کر گیا۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا واپس تشریف لائیں تو قافلہ وہاں سے جا چکا تھا۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا ا س خیال سے وہیں قافلے کی جگہ پر بیٹھ گئیں کہ میری تلاش میں قافلہ ضرور واپس آئے گا۔ عام طور پر معمول یہ تھا کہ قافلے کے پیچھے گر ی پڑی چیز اُٹھانے کے لئے ایک صاحب رہا کرتے تھے، اس موقع پر حضرت صفوان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس کام پر مامور تھے۔ جب وہ اس جگہ پر آئے اور اُنہوں نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو بلند آواز سے ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پکارا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نےکپڑے سے پردہ کرلیا۔ انہوں نے اپنی اُونٹنی بٹھائی اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اس پر سوار ہو کر لشکر میں پہنچ گئیں ۔ اس وقت سیاہ باطن منافقین نے غلط باتیں پھیلائیں اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی شان میں بدگوئی شروع کر دی، بعض مسلمان بھی اُن کے فریب میں آگئے اور اُن کی زبان سے بھی کوئی بیجا کلمہ سرزد ہوا۔ اسی دوران اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بیمار ہوگئی تھیں اور ایک ماہ تک بیمار رہیں ، بیماری کے عرصے میں انہیں اطلاع نہ ہوئی کہ اُن کے بارے میں منافقین کیا کہہ رہے ہیں ۔ ایک روز حضرت اُمِ مِسْطَح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے انہیں یہ خبر معلوم ہوئی۔ اس سے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا مرض اور بڑھ گیا اور اس صدمے میں اس طرح روئیں کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ ایک لمحہ کے لئے نیند آتی تھی، اس حال میں دو عالَم کے سردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہوئی اور حضرتِ اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی پاکی میں یہ آیتیں اُتریں اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا شرف و مرتبہ اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑھایا کہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات میں آپ کی طہارت و فضیلت بیان فرمائی۔ اس دوران میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کیلئے برسر ِمنبرخیر کے کلمات ہی ارشاد فرمائے، چنانچہ فرمایا: میں اپنے اہل کے متعلق سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، ۳ / ۶۱، الحدیث: ۴۱۴۱)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ منافقین یقینی طور پر جھوٹے ہیں ، اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا یقینی طور پر پاک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم پاک کو مکھی کے بیٹھنے سے محفوظ رکھا کہ وہ نجاستوں پر بیٹھتی ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بدعورت کی صحبت سے محفوظ نہ رکھے۔
حضرتِ عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی اس طرح آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی طہارت بیان کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سایہ زمین پر نہ پڑنے دیا تاکہ اس سایہ پر کسی کا قدم نہ پڑے تو جو پروردگار عَزَّوَجَلَّ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سایہ کو محفوظ رکھتا ہے کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہل کو محفوظ نہ فرمائے۔
حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ ایک جوں کا خون لگنے سے پروردگارِ عالَم عَزَّوَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نعلین اتار دینے کا حکم دیا توجو پروردگار عَزَّوَجَلَّ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعلین شریف کی اتنی سی آلودگی کوگوارا نہ فرمائے توکیسے ہوسکتا ہے کہ وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہل کی آلودگی گوارا کرے۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۷۷۲، ملخصاً)
اس طرح بہت سے صحابہ اور بہت سی صحابیات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے قسمیں کھائیں ۔ آیت نازل ہونے سے پہلے ہی اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرف سے دل مطمئن تھے، آیت کے نزول نے ان کی عزت و شرافت اور زیادہ کردی تو بدگویوں کی بدگوئی اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کِبار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے نزدیک باطل ہے اور بدگوئی کرنے والوں کے لئے سخت ترین مصیبت ہے۔
{لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ: تم اس بہتان کو اپنے لیے برا نہ سمجھو۔} یعنی اے بہتان سے بچنے والو!تم اس بہتان کو اپنے لیے برا نہ سمجھو، بلکہ بہتان سے بچناتمہارے لیے بہتر ہے کہ اللہ تَبَارَک وَتَعَالٰی تمہیں اس پر جزا دے گا اور اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی شان اور ان کی براء ت ظاہر فرمائے گا، چنانچہ اس براء ت میں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ آیتیں نازل فرمائیں۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۷۷۱، ملخصاً)
{ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ: ان میں سے ہر شخص کیلئے۔} یعنی ان بہتان لگانے والوں میں سے ہر شخص کے لئے اس کے عمل کے مطابق گنا ہ ہے کہ کسی نے طوفان اُٹھایا، کسی نے بہتان اُٹھانے والے کی زبانی موافقت کی، کوئی ہنس دیا، کسی نے خاموشی کے ساتھ سن ہی لیا، الغرض جس نے جو کیا اس کا بدلہ پائے گا۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۷۷۱-۷۷۲)
{وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ: ان میں سے وہ شخص جس نے اس کاسب سے بڑا حصہ اُٹھایا۔} یعنی ان بہتان لگانے والوں میں سے وہ شخص جس نے اس بہتان کاسب سے بڑا حصہ اٹھایا کہ اپنے دل سے یہ طوفان گڑھا اور اس کو مشہور کرتا پھرا اس کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ آیت میں جس کا ذکر ہے اس سے مراد عبد اللہ بن اُبی بن اَبی سلول منافق ہے۔