Home ≫ ur ≫ Surah An Noor ≫ ayat 55 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(55)
تفسیر: صراط الجنان
{وَعَدَ اللّٰهُ : اللہ نے وعدہ فرمایا ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دوسرے گروہ یعنی مخلص مؤمنوں کا ذکر فرمایاہے۔ آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وحی نازل ہونے سے لے کر دس سال تک مکہ مکرمہ میں صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ قیام فرمایا اور شب و روز کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کیا، پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ طیبہ کو ہجرت فرمائی اور انصار کے مکانات کو اپنی سکونت سے سرفراز کیا، مگر قریش اس پر بھی باز نہ آئے، آئے دن ان کی طرف سے جنگ کے اعلان ہوتے اور طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتیں ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہر وقت خطرہ میں رہتے اور ہتھیار ساتھ رکھتے۔ ایک روز ایک صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کبھی ایسا بھی زمانہ آئے گا کہ ہمیں امن میسرہو اور ہتھیاروں کے بوجھ سے ہم سبکدوش ہوں ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ضرورانہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں یعنی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان وغیرہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوخلافت دی ہے اور جیسا کہ مصر و شام کے جابر کافروں کوہلاک کرکے بنی اسرائیل کو خلافت دی اور ان ممالک پر اُن کو مُسلَّط کیااور اللہ تعالیٰ ضرور اِن کے لیے دین ِاسلام کو تمام اَدیان پر غالب فرمادے گا اور ضرور ان کے خوف کے بعد ان کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔ چنانچہ یہ وعدہ پورا ہوا اور سرزمین ِعرب سے کفار مٹادیئے گئے، مسلمانوں کا تَسلُّط ہوا، مشرق و مغرب کے ممالک اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے فتح فرمائے، قیصر وکسریٰ کے ممالک اور خزائن اُن کے قبضہ میں آئے اورپوری دنیا پر اُن کا رُعب چھا گیا۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۶۰، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۷۸۸، ملتقطاً)
خلافت ِراشدہ کی دلیل:
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور آپ کے بعد ہونے والے خلفائِ راشدین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی خلافت کی دلیل ہے کیونکہ ان کے زمانے میں عظیم فتوحات ہوئیں اور کسریٰ وغیرہ بادشاہوں کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور امن، قوت و شوکت اور دین کا غلبہ حاصل ہوا۔(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۶۰)
ترمذی اور ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خلافت میرے بعد تیس سال ہے پھر ملک ہوگا۔‘‘( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی الخلافۃ، ۴ / ۹۷، الحدیث: ۲۲۳۳، ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب فی الخلفاء، ۴ / ۲۷۸، الحدیث: ۴۶۴۶)اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت دو برس تین ماہ، حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت دس سال چھ ماہ، حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت بارہ سال اور حصرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی خلافت چار سال نو ماہ اور حضرت امام حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت چھ ماہ ہوئی۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۶۱)
{وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ: اور جو اس کے بعد ناشکری کرے۔} یعنی جو اس وعدے کے بعد نعمت کی ناشکری کرے گا تو وہی فاسق ہیں کیونکہ انہوں نے اہم ترین نعمت کی ناشکری کی اور اسے حقیر سمجھنے پر دلیر ہوئے۔مفسرین فرماتے ہیں کہ اس نعمت کی سب سے پہلی جو ناشکری ہوئی وہ حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کرنا ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۷۸۸)