Home ≫ ur ≫ Surah An Noor ≫ ayat 63 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًاۚ-فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(63)
تفسیر: صراط الجنان
{لَا تَجْعَلُوْا: نہ بنالو۔} ارشاد فرمایا کہ اے
لوگو!میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم ایک
دوسرے کو پکارتے ہو۔اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اے لوگو!میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پکارنے کو آپس میں ایسا
معمولی نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے کیونکہ
جسے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پکاریں اس پر جواب دینا اور عمل
کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہوجاتا ہے اور قریب حاضر ہونے کے لئے
اجازت طلب کر ے اور اجازت سے ہی واپس ہو۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اے لوگو!
میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم،تکریم، توقیر، نرم آواز کے
ساتھ اور عاجزی و انکساری سے انہیں ا س طرح کے الفاظ کے ساتھ
پکارو: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، یَانَبِیَّ اللّٰہِ، یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ،
یَااِمَامَ الْمُرْسَلِیْنَ، یَارَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، یَاخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔ اس آیت سے معلوم ہوا
کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں اور وصالِ ظاہری کے بعد
بھی انہیں ایسے الفاظ کے ساتھ نِدا کرنا جائز نہیں جن
میں ادب و تعظیم نہ ہو۔یہ بھی معلوم ہو اکہ جس نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حقیر سمجھا وہ کافر ہے اور دنیا وآخرت
میں ملعون ہے۔( بیضاوی، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۲۰۳، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ /
۳۶۵، صاوی،
النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ /
۱۴۲۱، ملتقطاً)
اسی
لئے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یا محمد‘‘ کہہ کر پکارنے کی اجازت نہیں ۔ لہٰذا اگر کسی
نعت وغیرہ میں اس طرح لکھا ہوا ملے تو اسے تبدیل کردینا چاہیے۔
نوٹ:حضورِ
اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یا محمد‘‘ کہہ کر پکارنے سے متعلق مزید تفصیل ’’صراط
الجنان‘‘ کی جلد1،صفحہ48پر ملاحظہ فرمائیں ۔
{قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ: بیشک اللہ جانتا ہے۔} شانِ نزول :جمعہ
کے دن منافقین پر مسجد میں ٹھہر کر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خطبے کا سُننا گراں ہوتا تھا
تو وہ چپکے چپکے، آہستہ آہستہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی آڑ لے کر سرکتے سرکتے مسجد سے نکل
جاتے تھے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جانتا ہے جو
تم میں سے کسی چیز کی آڑ لے کر چپکے سے نکل جاتے ہیں تو میرے
حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے اِعراض کرنے والے اور ان کی اجازت کے بغیر چلے
جانے والے اس بات سے ڈریں کہ انہیں دنیا
میں تکلیف، قتل، زلزلے، ہولناک حوادث، ظالم بادشاہ کا مُسلَّط ہونا یا
دل کا سخت ہو کر معرفت ِالٰہی سے محروم رہنا وغیرہ کوئی مصیبت پہنچے یا
انہیں آخرت میں دردناک عذاب پہنچے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۳۶۵، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۷۹۲، ملتقطاً)