Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rad ≫ ayat 10 ≫ Translation ≫ Tafsir
سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّیْلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ(10)
تفسیر: صراط الجنان
{سَوَآءٌ:برابر ہیں ۔} یعنی دل کی چھپی او رزبان سے اعلانیہ کہی ہوئی باتیں اور رات کو چھپ کر کئے ہوئے عمل اور دن کو ظاہری طور پر کئے ہوئے کام سب اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے، کوئی اس کے علم سے باہر نہیں ۔(جلالین، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۲۰۱)
عمل میں اخلاص پیدا کرنے اور دونوں جہاں کی سعادت حاصل کرنے کا طریقہ:
علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جس نے بھی اس آیت میں غورو فکر کیا اور اس کے تقاضوں کےمطابق عمل کیا تو اس کے عمل میں اخلاص آ ہی جائے گا ،پھر وہ عبادت چاہے اعلانیہ کرے یا پوشیدہ طور پر ،دن میں کرے یا رات میں سب اس کے نزدیک برابر ہو گا کیونکہ جب وہ یہ بات اپنے ذہن میں رکھے گا کہ میراہر حال اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے علم میں ہے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں تو وہ اپنے ظاہر اور باطن میں کوئی ایسا کام کرنے کی جرأت نہ کرے گا جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ (صاوی، الرعد، تحت االآیۃ: ۱۰، ۳ / ۹۹۳)
اورامام غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ایک دانشمند کا قول ہے کہ انسان جتنا تنگدستی سے ڈرتا ہے، اگر اتنا جہنم سے ڈرتا تو دونوں سے نجات پالیتا اور جتنی اسے دولت سے محبت ہے اگر جنت سے اسے اتنی محبت ہوتی تو دونوں کو پالیتا اور جتنا ظاہر میں لوگوں سے ڈرتا ہے اگراتنا باطن میںاللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتا تو دونوں جہانوں میں سعید شمار ہوتا۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان فضیلۃ الفقر مطلقاً، ۴ / ۲۴۵) ترغیب کے لئے یہاں ایک حکایت ملاحظہ فرمائیں ۔
میرا رب عَزَّوَجَلَّ مجھے دیکھ رہا ہے:
حضرت اسلم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اکثر رات کے وقت مدینہ منورہ کا دورہ فرماتے تاکہ اگر کسی کو کوئی حاجت ہو تو اسے پورا کریں ، ایک رات میں بھی ان کے ساتھ تھا، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ چلتے چلتے اچانک ایک گھر کے پاس رک گئے، اندر سے ایک عورت کی آواز آ رہی تھی کہ ’’بیٹی دودھ میں تھوڑا سا پانی ملا دو ۔ لڑکی یہ سن کر بولی ’’امی جان ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حکم جاری فرمایا ہے کہ کوئی بھی دودھ میں پانی نہ ملائے۔ ماں نے یہ سن کر کہا: بیٹی! اب تو تمہیں حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہیں دیکھ رہے، انہیں کیا معلوم کہ تم نے دودھ میں پانی ملایا ہے، جاؤ اور دودھ میں پانی ملا دو۔ لڑکی نے یہ سن کر کہا:’’ خدا کی قسم! میں ہر گز ایسا نہیں کرسکتی کہ ان کے سامنے تو ان کی فرمانبرداری کروں اور ان کی غیر موجود گی میں ان کی نافرمانی کروں، اس وقت اگر چہ مجھے حضرت عمربن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہیں دیکھ رہے، لیکن میرا رب عَزَّوَجَلَّ تو مجھے دیکھ رہا ہے، میں ہر گز دودھ میں پانی نہیں ملاؤں گی ۔ حضرت عمرفاروق رَضِی َاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ماں بیٹی کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو سن لی تھی ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس لڑکی کے شادی شدہ ہونے کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ۔ چنا نچہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس لڑکی کے گھر اپنے صاحبزادے حضرت عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے شادی کے لئے پیغام بھیجا تو انہوں نے بخوشی قبول کرلیا۔ اس طرح حضرت عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شادی اس لڑکی سے ہوگئی اور پھر ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ولادت ہوئی۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الثانیۃ عشرۃ، ص۲۸-۲۹، ملخصاً)