banner image

Home ur Surah Ar Rahman ayat 26 Translation Tafsir

اَلرَّحْمٰن

Ar Rahman

HR Background

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ(26)وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ(27)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(28)

ترجمہ: کنزالایمان زمین پر جتنے ہیں سب کو فنا ہے۔ اور باقی ہے تمہارے رب کی ذات عظمت اور بزرگی والا۔ تو اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان زمین پر جتنی مخلوق ہے سب فنا ہونے والی ہے۔ اور تمہارے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات باقی رہے گی۔ توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ: زمین پر جتنی مخلوق ہے سب فنا ہونے والی ہے۔} یعنی زمین پر جتنے جاندار ہیں  سب ہلاک ہونے والے ہیں  کیونکہ دنیا میں  انسان (اور دیگر جانداروں ) کا وجود عارضی ہے لہٰذا وہ باقی نہیں  رہے گا اور جو چیز باقی نہ رہے وہ فانی ہوتی ہے۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۲۱۰)

ہر جاندار کو ایک دن دنیا سے رخصت ضرور ہونا ہے:

            تفسیر روح البیان میں  ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو فرشتوں  نے کہا کہ انسان ہلاک ہو گئے اور جب یہ آیت ’’ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ‘‘ نازل ہوئی تو فرشتوں  کو اپنی موت کا بھی یقین ہو گیا۔( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۶، ۹ / ۲۹۷-۲۹۸)

{وَ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ: اور تمہارے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات باقی رہے گی۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، زمین پر موجود تمام مخلوق فنا ہو جائے گی اور صرف تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات باقی رہے گی جو عظمت و کِبریائی والی ہے اور وہ اپنی عظمت و جلالت کے باوجود اپنے اَنبیاء، اولیاء اور اہلِ ایمان پر لطف وکرم فرمائے گااور مخلوق کے فنا ہونے کے بعد انہیں  دوبارہ زندہ کرے گا اور انہیں  اَبدی زندگی عطا فرمائے گا۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۲۱۱، ملتقطاً)

سورہِ رحمٰن کی آیت نمبر27کے آخری الفاظ ’’ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ‘‘ کی برکت:

            اس آیت کے آخری الفاظ کو اپنی دعا میں  شامل کرنے کی برکت سے دعا قبول ہو جاتی ہے،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس دعا ’’یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَام‘‘ کو لازم پکڑ لو اور اس کی کثرت کیا کرو۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۹۱-باب، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۳۵۳۵)

            اورحضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو ’’یَاذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَام‘‘ کہہ رہا تھا،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا: ’’بے شک تیری دعا قبول کر لی جائے گی تودعا مانگ۔( مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الدعاء،ما ذکر فیمن سأل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یعلّمہ ما یدعو بہ فعلّمہ،۷ / ۵۶،الحدیث:۷)

{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں  اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں  کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی جو نعمتیں  سب کے فنا ہونے پر مُرَتَّب ہیں  جیسے دوبارہ زندہ ہونا، دائمی زندگی ملنا اور ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتیں  عطا ہونا وغیرہ،تم دونوں  ان میں  سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں  کو جھٹلاؤ گے؟( بیضاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۲۷۶)

فنا ہونا بھی ایک اعتبار سے نعمت ہے:

            حضرت عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’فنا ہونااس اعتبار سے نعمت ہے کہ ایمان والے موت کے بعد اَبدی اور سَرمدی نعمتوں  کو پا ئیں  گے۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۱۹۳)

            جیسا کہ حضرت ابو قتادہ بن ربعی انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے فرمایا: ’’مُسْتَرِیْحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْہُ‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مُسْتَرِیْحٌ اور مُسْتَرَاحٌ مِنْہ سے کیا مراد ہے؟ارشاد فرمایا: ’’مومن بندہ جب مرتا ہے تو وہ مصیبتوں  سے نجات پا کر اللہ تعالیٰ کی آغوشِ رحمت میں  جانا چاہتا ہے اور بدکار آدمی جب مرتا ہے تو اس کے مر جانے سے اللہ تعالیٰ کے بندے ،شہر، درخت اور جانور بھی راحت پانا چاہتے ہیں۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۲)

            اور حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’موت کو خوش آمدید ہو کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو حبیب کو حبیب کے قریب کر دیتی ہے۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۱۹۳)