Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rum ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
الٓمّٓ(1)غُلِبَتِ الرُّوْمُ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{الٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے ،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{غُلِبَتْ: مغلوب ہوگئے۔} شانِ نزول :ایران اور روم کے درمیان جنگ جاری تھی اورچونکہ ایران کے رہنے والے مجوسی تھے، اس لئے عرب کے مشرکین اُن کا غلبہ پسند کرتے تھے جبکہ رومی اہلِ کتاب تھے، اس لئے مسلمانوں کو اُن کا غلبہ اچھا معلوم ہوتا تھا۔ایک مرتبہ ایران کے بادشاہ خسرو پرویز نے رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے اپنا لشکر بھیجا تو رو م کے بادشاہ قیصر نے بھی ا س کے مقابلے کے لئے اپنا لشکر بھیج دیا۔شام کی سرزمین کے قریب جب ان لشکروں کا آپس میں مقابلہ ہواتو ایرانی لشکر رومی فوجیوں پر غالب آ گیا اور انہیں شکست دے دی۔ مسلمانوں نے جب یہ خبر سنی تو انہیں بہت گراں گزری جبکہ کفار ِمکہ اس سے خوش ہو کر مسلمانوں سے کہنے لگے کہ تم بھی اہلِ کتاب ہو اور عیسائی بھی اہلِ کتاب ہیں اور ہم بھی اُمّی ہیں اور فارس والے بھی اُمّی ، ہمارے بھائی یعنی فارس والے تمہارے بھائیوں یعنی رومیوں پر غالب آگئے ہیں اورجب ہماری تمہاری جنگ ہوگی تو ہم بھی تم پر غالب آ جائیں گے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور اِن میں خبر دی گئی کہ چند سال میں پھر رومی فارس والوں پر غالب آجائیں گے اور یہ غیبی خبرسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت صحیح ہونے اور قرآنِ کریم کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی روشن دلیل ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا یقین:
جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو انہیں سن کر حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کفارِ مکہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ اے مکہ والو! تم اس وقت کی جنگ کے نتیجے سے خوش مت ہو ،ہمیں ہمارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رومیوں کے غلبے کی خبر دے دی ہے، خدا کی قسم! رومی ضرور فارس والوں پر غلبہ پائیں گے۔ اُبی بن خلف کافر یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے کھڑا ہوگیا ،پھر اس کے اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے درمیان سو سو اونٹ کی شرط لگ گئی کہ اگر نو سال میں رومی فارس والوں پر غالب نہ آئے تو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اُبی بن خلف کو سو اونٹ دیں گے اور اگر رومی غالب آجائیں تو اُبی بن خلف حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو سو اونٹ دے گا۔ جب یہ شرط لگی اس وقت تک جوئے کی حرمت نازل نہ ہوئی تھی۔سات سال کے بعد اس خبر کی سچائی ظاہر ہوئی اور صلحِ حُدَیْبِیَہ یا جنگ ِ بدر کے دن رومی فارس والوں پر غالب آگئے ، رومیوں نے مدائن میں اپنے گھوڑے باندھے اور عراق میں رومیہ نامی ایک شہر کی بنیاد رکھی ۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے شرط کے اُونٹ اُبی بن خلف کی اولاد سے وصول کرلئے کیونکہ وہ اس عرصے میں مرچکا تھا اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ شرط کے مال کو صدقہ کردیں ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۴۵۷-۴۵۸، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴، ص۹۰۱، ملتقطاً)
حَربی کفار کے ساتھ خرید و فروخت سے متعلق ایک مسئلہ:
اما م اعظم ابوحنیفہ اورامام محمدرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمَاکے نزدیک حَربی کفار کے ساتھ عقودِ فاسدہ و غیرہ جائز ہیں اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا شرط لگانے والا واقعہ ان کی دلیل ہے ۔یاد رہے کہ اس مسئلے کی کچھ تفصیلات ہیں اس لئے عوامُ النّاس کو چاہئے کہ علمائے کرام سے اس مسئلے کی تفصیل معلوم کئے بغیر از خود اس پر عمل نہ کریں ۔