banner image

Home ur Surah Ar Rum ayat 33 Translation Tafsir

اَلرُّوْم

Ar Rum

HR Background

وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُّنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَاۤ اَذَاقَهُمْ مِّنْهُ رَحْمَةً اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ بِرَبِّهِمْ یُشْرِكُوْنَ(33)لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْؕ-فَتَمَتَّعُوْاٙ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(34)اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ یَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ یُشْرِكُوْنَ(35)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتے ہیں ا س کی طرف رجوع لاتے ہوئے پھر جب وہ انہیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ دیتا ہے جبھی ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔ کہ ہمارے دئیے کی ناشکری کریں تو برت لو اب قریب جاننا چاہتے ہو۔ یا ہم نے ان پر کوئی سند اُتاری کہ وہ اُنہیں ہمارے شریک بتا رہی ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو ا س کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتے ہیں پھرجب وہ انہیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تواس وقت ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔ تاکہ ہمارے دئیے ہوئے کی ناشکری کریں تو فائدہ اٹھالو تو عنقریب تم جان لو گے۔ یا کیاہم نے ان پر کوئی دلیل اتاری ہے کہ وہ دلیل انہیں ہمارے شریک بتا رہی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ: اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب شرک کرنے والوں  کو مرض ، قحط یا اس کے علاوہ اور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسے ہی پکارتے ہیں  کیونکہ وہ جانتے ہیں  کہ بت ان کی مصیبت ٹال دینے کی قدرت نہیں  رکھتے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ انہیں  اس تکلیف سے خلاصی عنایت کرکے اور راحت عطا فرماکر اپنے پاس سے رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تونتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس وقت ان میں  سے ایک گروہ عبادت میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے اور ہمارے دئیے ہوئے مال اور رزق کی ناشکری کرنے لگتا ہے ، تو اے کافرو!دنیا کی نعمتوں  سے چند روزفائدہ اٹھالو ، عنقریب تم جان لو گے کہ آخرت میں  تمہارا کیا حال ہوتا ہے اور اس دنیا طلبی کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے۔(روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۷ / ۳۷، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۹۰۹، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۳ / ۴۶۴، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ آرام میں  اللہ تعالیٰ کو بھول جانا اور تکلیف میں  اسے یاد کرنا کفار کا طریقہ ہے، لہٰذا مسلمانوں  کو ا س سے بچنا چاہئے اور غمی، خوشی ہر حال میں  اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا چاہئے ۔

{اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمْ سُلْطٰنًا: یا کیاہم نے ان پر کوئی دلیل اتاری ہے۔} یعنی کیا ہم نے مشرکوں  پر کوئی حجت یا کوئی کتاب اتاری ہے کہ وہ انہیں  ہمارے شریک بتا رہی ہے اور شرک کرنے کا حکم دیتی ہے، ایسا ہر گز نہیں  ہے،ان کے پاس اپنے شرک کی نہ کوئی حجت ہے نہ کوئی سند بلکہ وہ کسی بے سند و دلیل ہی ایسا کررہے ہیں  ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۴۶۴، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۳۴۳، ملتقطاً)