banner image

Home ur Surah As Saff ayat 2 Translation Tafsir

اَلصَّفّ

Surah As Saff

HR Background

سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(1)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2)كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3)

ترجمہ: کنزالایمان اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور وہی عزت و حکمت والا ہے۔ اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔ کتنی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اللہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور وہی بہت عزت والا،بڑا حکمت والا ہے۔ اے ایمان والو ! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ: اللّٰہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں  میں  اور جو زمین میں  ہے۔} ارشاد فرمایا کہ آسمانوں  اور زمین میں  موجود تمام اَشیاء ہر ا س چیز سے اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہیں  جو اس کی بلند و بالا اور عظیم بارگاہ کے لائق نہیں  ،وہی عزت والا اور تمام اَفعال میں  حکمت والا ہے۔( روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۴۹۳)

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو ! } شانِ نزول :حضرت عبد اللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’ہم چند صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی،ہم میں  اس بات کا تذکرہ ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا عمل محبوب ترین ہے اگر ہمیں  معلوم ہو جاتا تو ہم اسی پر عمل کرتے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں  : ’’سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں  میں  اور زمین میں  ہے اور وہی بہت عزت والا،بڑا حکمت والا ہے۔اے ایمان والو ! وہ بات کیوں  کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔

            حضرت عبد اللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمارے سامنے یہ آیتیں  تلاوت فرمائیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الصف، ۵ / ۲۰۲، الحدیث: ۳۳۲۰)

             یاد رہے کہ اس آیت کے شانِ نزول میں  اور بھی کئی قول ہیں  ، اُن میں  سے ایک یہ ہے کہ یہ آیت ان منافقین کے بارے میں  نازل ہوئی جو مسلمانوں  سے مدد کرنے کا جھوٹا وعدہ کرتے تھے۔( خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۶۲)اس اعتبار سے منافقوں  کی مذمت ہے اور انہیں  اہلِ ایمان کہہ کر مُخاطَب کرناان کے ظاہری ایمان کی وجہ سے ہے ۔ اور اگر یہ آیت صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہُمْ کے بارے میں  نازل ہوئی ہے تو ا س میں  ان کی مذمت نہیں  بلکہ تربیت فرمائی گئی ہے کہ ایسے دعوے کرنا درست نہیں  کیونکہ آنے والے وقت کا معلوم نہیں  کہ کیسا آئے ،ممکن ہے کہ اس وقت کسی وجہ سے وہ یہ دعویٰ پورا نہ کر سکیں ۔

قول اور فعل میں  تضاد نہیں  ہونا چاہئے :

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ قول اور فعل میں  تضاد نہیں  ہونا چاہئے بلکہ اپنے قول کے مطابق عمل بھی کرنا چاہئے ۔ یاد رہے کہ اس تضاد کی بہت سی صورتیں  ہیں  جیسے لوگوں  کو اچھی باتیں  بتانا لیکن خود ان پر عمل نہ کرنا ،یا کسی سے وعدہ کرنااور اس وقت یہ خیال کرنا کہ میں  یہ کام کروں  گا ہی نہیں ،صرف زبانی وعدہ کر لیتا ہوں ،وغیرہ یعنی ایک بات کہہ دیتا ہوں  لیکن پوری نہیں  کروں  گا۔ اَحادیث میں  ان چیزوں  کی خاص طور پر شدید مذمت اور وعید بیان کی گئی ہے ،چنانچہ جو لوگوں  کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں  اور خود برائیوں  میں  مبتلا رہتے ہیں  ان کے بارے میں  حضرت اسامہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن ایک شخص کولایاجائے گا،پھراسے دوزخ میں  ڈال دیاجائے گا،اس کی انتڑیاں  دوزخ میں  بکھرجائیں  گی اوروہ اس طرح گرد ش کررہاہوگاجس طرح چکی کے گرد گدھاگردش کرتاہے،جہنمی اس کے گرد جمع ہوکراس سے کہیں  گے :اے فلاں !کیابات ہے تم توہم کونیکی کی دعوت دیتے تھے اوربرائی سے منع کرتے تھے ۔وہ کہے گامیں  تم کونیکی کی دعوت دیتاتھالیکن خود نیک کام نہیں  کرتاتھااورمیں  تم کوتوبرائی سے روکتاتھامگرخودبرے کام کرتاتھا۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۳۲۶۷۔)

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’شب ِمعراج میراگزرایسے لوگوں  کے پاس سے ہواجن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں  سے کاٹے جارہے تھے ۔ میں  نے پوچھا:اے جبریل! عَلَیْہِ  السَّلَام ،یہ کون لوگ ہیں ؟انہوں  نے عرض کی :یہ آپ کی امت کے وہ وعظ کرنے والے ہیں  جووہ باتیں  کہتے تھے جن پر خود عمل نہیں  کرتے تھے ۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب البیان والشعر، الفصل الثانی، ۲ / ۱۸۸، الحدیث: ۴۸۰۱)

            اور وعدہ خلافی کرنے والوں  کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، جو کسی مسلمان سے عہد شکنی کرے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ ،فرشتوں  اور تمام انسانوں  کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔( بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ،باب مایکرہ من التعمّق والتنازع فی العلم۔۔۔الخ،۴ / ۵۰۵،الحدیث:۷۳۰۰)

            یونہی آیت کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جو کام تم کرتے نہیں  ہو اس کے دعوے نہیں  کرو جیسے ایک آدمی غریبوں  کی مدد نہیں  کرتا لیکن دعویٰ یہ کرتا ہے کہ وہ غریبوں  کی بہت مدد کرتا ہے تو یہ محض جھوٹا دعویٰ ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ یا ایک آدمی ایک کام کرنے کا دعویٰ کرے لیکن اسے پورا نہ کرے جیسے کہے کہ فلاں  جگہ کے غریبوں  کی اتنی مدد کروں  گا لیکن کہتے ہوئے دل میں  موجود ہو کہ عمل نہیں  کروں  گا تو گویا جو کہتے ہیں  وہ کرتے نہیں ۔

            اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  قول اور فعل کے تضاد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔