banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 106 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(106)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(107)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(108)

ترجمہ: کنزالایمان جب کہ ان سے ان کے ہم قوم نوح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا بھیجا ہوا امین ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ ترجمہ: کنزالعرفان جب ان سے ان کے ہم قوم نوح نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟ بیشک میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالَ لَهُمْ: جب ان سے فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم نے اس وقت جھٹلایا جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا :کیا تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرتے نہیں  تاکہ کفر اور گناہوں  کو ترک کر دو۔ بیشک میں  اللہ تعالٰی کی طرف سے تمہارے لئے ایک ایسا رسول ہوں  جس کی امانت داری تم میں  مشہور ہے اور جو دُنْیَوی کاموں  پر امین ہے وہ وحی اور رسالت پر بھی امین ہو گا لہٰذاتم اللہ تعالٰی سے ڈرو اور جو میں  تمہیں  توحید و ایمان اور اللہ تعالٰی کی طاعت کے بارے میں  حکم دیتا ہوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔( خازن،الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ۳ / ۳۹۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ص۸۲۵، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ۶ / ۲۹۱-۲۹۲، ملتقطاً)

{رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ: امانتداررسول۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امانت داری آپ کی قوم کو اسی طرح تسلیم تھی جیسا کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت داری پر عرب کو اتفاق تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۸۲۵)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ امانت داری:

            سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ گرامی میں  دیگر اَوصاف کے ساتھ ساتھ امانت و دیانت داری کا وصف بھی انتہائی اعلیٰ پیمانے پر موجود تھا اور آپ کی امانت داری کے اپنے پرائے سبھی قائل تھے اورآپ صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے، یہاں  حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت داری سے متعلق تین واقعات کا خلاصہ درج ذیل ہے جن سے آپ کی امانت و دیانت داری کی شان واضح ہوتی ہے۔

(1)…پچیس سال کی عمر شریف میں  سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و صداقت کا چرچا دور دور تک پہنچ چکا تھا۔آپ کے اسی وصف کی وجہ سے حضرت خدیجہ نے اپنا تجارتی سامان لے جانے کے لئے آپ کو منتخب کیا اور آپ کی بارگاہ میں  یہ عرض پیش کی کہ آپ میرا تجارت کا مال لے کر ملک ِشام جائیں ،جو معاوضہ میں  دوسروں  کو دیتی ہوں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و دیانت داری کی بنا پر میں  آپ کو اس کا دوگنا دوں  گی۔

(2)…نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و دیانت کی بدولت اللہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کو مخلوق میں  انتہائی مقبول بنا دیا اور عقلِ سلیم اور بے مثل دانائی کا عظیم جوہر عطا فرما دیا، چنانچہ جب تعمیر ِکعبہ کے وقت حجرِ اَسوَد کو نَصب کرنے کے معاملے میں  عرب کے بڑے بڑے سرداروں  کے درمیان جھگڑا کھڑا ہو گیا اور قتل و غارت گری تک نوبت پہنچ گئی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے جھگڑے کا ایسا لاجواب فیصلہ فرما دیا کہ بڑے بڑے دانشوروں  اور سرداروں  نے اس فیصلہ کی عظمت کے آگے سر جھکا دیا اور سبھی کفار پکار اُٹھے کہ وَاللہ یہ امین ہیں  اور ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں ۔

 (3)…کفارِ مکہ اگرچہ رحمت ِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بدترین دشمن تھے مگر اس کے باوجود حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و دیانت پر کفار کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے قیمتی مال و سامان کو حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس امانت رکھتے تھے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت داری کی یہ شان تھی کہ آپ نے اس وقت بھی ان کفار کی امانتیں  واپس پہنچانے کا انتظام فرمایا جب وہ جان کے دشمن بن کر آپ کے مقدس مکا ن کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔