banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 111 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَﭤ(111)

ترجمہ: کنزالایمان بولے کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں اور تمہارے ساتھ کمینے ہو ئے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان ۔(قوم نے) کہا: کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں حالانکہ تمہاری پیروی گھٹیا لوگوں نے کی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا: بولے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے جواب دیا کہ کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں  حالانکہ تمہاری پیروی ہماری قوم کے صرف گھٹیا لوگوں  نے کی ہے۔یہ بات انہوں  نے غرور کی وجہ سے کہی تھی کیونکہ انہیں  غریبوں  کے پاس بیٹھنا گوارا نہ تھا اوراس میں  وہ اپنی کَسرِشان سمجھتے تھے، اس لئے ایمان جیسی نعمت سے محروم رہے۔ کمینے اور گھٹیا لوگوں  سے ان کی مراد غریب اور پیشہ ور لوگ تھے اور انہیں  رذیل اور کمین کہنا یہ کفار کا مُتکبِّرانہ فعل تھا ورنہ درحقیقت صَنعت اور ردی پیشہ ایسی چیز نہیں  کہ جس سے آدمی دین میں  ذلیل ہو جائے۔مالداری اصل میں  دینی مالداری ہے اور نسب در اصل تقویٰ کا نسب ہے۔ یہاں  ایک مسئلہ یاد رہے کہ مومن کو گھٹیا کہنا جائز نہیں  خواہ وہ کتنا ہی محتاج و نادار ہو یا وہ کسی بھی نسب کا ہو۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۸۲۵)

 عزت و ذلت کا معیار دین اور پرہیزگاری ہے:

            اس سے معلوم ہو اکہ عزت و ذلت کا معیار مال و دولت کی کثرت نہیں  بلکہ دین اور پرہیزگاری ہے چنانچہ جس کے پاس دولت کے انبار ہوں  لیکن دین اور پرہیزگاری نہ ہو تو وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  عزت والا نہیں  اوراس کی بارگاہ میں  ان کے مال و دولت کی حیثیت مچھر کے پر برابر بھی نہیں  اگرچہ دُنْیَوی طور پر وہ کتنا ہی عزت دار شمار کیا جاتا ہو، اسی طرح جو شخص غریب اور نادار ہے لیکن دین اور پرہیزگاری کی دولت سے مالا مال ہے، وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  عزت والا ہے اگرچہ دنیوی طور پر ا سے کوئی عزت داروں  میں  شمارنہ کرتا ہو اور لوگ اسے کمتر،حقیر اور ذلیل سمجھتے ہوں ۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘(حجرات:۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!ہم نے تمہیں  ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں  قومیں  اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں  پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں  تم میں  زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں  زیادہ پرہیزگارہےبیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔

            اور حضرت جابر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ ایک ہے اور تمہارے والد ایک ہیں ،سن لو!کسی عربی کو عجمی پر،کسی عجمی کو عربی پر،کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں  البتہ جو پرہیزگار ہے وہ دوسروں  سے افضل ہے، بیشک اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  تم میں  سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں  زیادہ پرہیزگارہے۔( شعب الایمان،الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی حفظ اللسان عن الفخر بالآباء، ۴ / ۲۸۹، الحدیث: ۵۱۳۷)

            اور غریب، پرہیزگار مسلمانوں  کی قدرو قیمت سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بہت سے پَراگندہ بالوں  والے ایسے ہوتے ہیں  جنہیں  (حقیر سمجھ کر) لوگ دروازوں  سے دھکے دیتے ہیں  (لیکن اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  ان کا یہ مقام ہوتا ہے کہ ) اگر وہ کسی کام کے لئے قسم اٹھا لیں  تو اللہ تعالٰی ان کی قسم کو ضرور پورا کر دے۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الضعفاء والخاملین، ص۱۴۱۲، الحدیث: ۱۳۸(۲۶۲۲))

            افسوس ہمارے معاشرے میں  بھی عزت کے قابل اسے ہی سمجھا جاتا ہے جس کے پاس دولت کی کثرت ہو، گاڑیاں ، بنگلے، عہدے اور منصب ہوں  اگرچہ اس کے پاس یہ سب چیزیں  سود، جوئے، رشوت اور دیگر حرام ذرائع سے حاصل کی ہوئی آمدنی سے آئی ہوں  اور جو شخص محنت مزدوری کر کے اور طرح طرح کی مشقتیں  برداشت کر کے گزارے کے لائق حلال روزی کماتا ہواسے لوگ کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں  عقل ِسلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔