Home ≫ ur ≫ Surah Ash Shuara ≫ ayat 116 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِیْنَ(114)اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌﭤ(115)قَالُوْا لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ یٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَﭤ(116)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ: اور میں دور کرنے والا نہیں ۔} قوم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر کہا کہ پھر آپ کمینوں کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے تاکہ ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ کی بات مانیں ۔ اس کے جواب میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’یہ میری شان نہیں کہ میں تمہاری ایسی خواہشوں کو پورا کروں اور تمہارے ایمان کے لالچ میں غریب مسلمانوں کو اپنے پاس سے نکال دوں ۔( تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۸ / ۵۲۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۸۲۶، ملتقطاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غریب پَروری:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ غریبوں فقیروں کے ساتھ بیٹھنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ غریب مسلمانوں سے بھی ہم نشینی رکھے،ان کی دلجوئی کرے اور ان کی مشکلات دور کرنے کے لئے عملی طور پراِ قدامات کرنے کی کوشش کرے، ترغیب کے لئے یہاں غریب پروری اور مسکین نوازی سے متعلق تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیمات اور آپ کی مبارک سیرت ملاحظہ ہو،چنانچہ
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ دعا مانگی: ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، قیامت کے دن مجھے مسکینوں کی جماعت سے ہی اٹھانا۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے عرض کی: کیوں (ایسا ہو؟) ارشاد فرمایا: ’’مسکین لوگ امیر لوگوں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے،اے عائشہ! مسکین کے سوال کو کبھی رد نہ کرنا اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو،اے عائشہ!مسکینوں سے محبت رکھو اور انہیں اپنے قریب کرو (ایسا کرنے سے) اللہ تعالٰی قیامت کے دن تجھے اپنا قرب عطا فرمائے گا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء انّ فقراء المہاجرین یدخلون الجنّۃ قبل اغنیاء ہم، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۳۵۹)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(اگر تم مجھے ڈھونڈنا چاہو تو) مجھے اپنے کمزور اور غریب لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ تمہیں کمزور اور غریب لوگوں کے سبب رزق دیاجاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔( ترمذی، کتاب الجہاد، باب ما جاء فی الاستفتاح بصعالیک المسلمین، ۳ / ۲۶۸، الحدیث: ۱۷۰۸)
حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ (غلام) تمہارے بھائی اور خادم ہیں ، اللہ تعالٰی نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے تو جس شخص کے ماتحت ا س کا بھائی ہو وہ اسے وہ چیز کھلائے جسے خود کھاتا ہو،وہ لباس پہنائے جسے خود پہنتا ہو اور تم انہیں ایسے کام پر مجبور نہ کرو جو ان کے لئے دشوار ہو اور اگرانہیں ایسے کام کے لئے کہو تواس میں ان کی مدد کرو۔( مسلم، کتاب الایمان والنذور، باب اطعام المملوک ممّا یأکل۔۔۔ الخ، ص۹۰۶، الحدیث: ۴۰(۱۶۶۱))
اسی طرح کثیر اَحادیث میں یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی کرنے، مزدور کو ا س کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینے،غریب مقروض کو مہلت دینے یا قرض معاف کردینے کی تعلیم دی گئی ہے۔اب غریب پَروری سے متعلق سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کا عالم ملاحظہ ہو،چنانچہ قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مشہور تصنیف ’’شفا شریف‘‘ میں ہے کہ’’حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکینوں کی عیادت فرماتے،فقیروں کے پاس بیٹھتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرمالیتے تھے۔( الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا تواضعہ، ص۱۳۱، الجزء الاول)
علامہ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں جب حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی محتاج کو ملاحظہ فرماتے تو اپنا کھاناپینا تک اٹھا کر عنایت فرما دیتے حالانکہ ا س کی آپ کو بھی ضرورت ہوتی،آپ کی عطا مختلف قسم کی ہوتی جیسے کسی کو تحفہ دیتے، کسی کو کوئی حق عطا فرماتے،کسی سے قرض کا بوجھ ا تار دیتے،کسی کو صدقہ عنایت فرماتے، کبھی کپڑ اخریدتے اور ا س کی قیمت ادا کر کے اس کپڑے والے کو وہی کپڑ ابخش دیتے،کبھی قرض لیتے اور (اپنی طرف سے) اس کی مقدار سے زیادہ عطا فرما دیتے،کبھی کپڑ اخرید کراس کی قیمت سے زیادہ رقم عنایت فرما دیتے اور کبھی ہدیہ قبول فرماتے اور اس سے کئی گُنا زیادہ انعام میں عطا فرما دیتے۔( مدارج النبوہ، باب دوم در بیان اخلاق وصفا، وصل در جود وسخاوت، ۱ / ۴۹)
اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں کو اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک تعلیمات کو اپنانے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
اللہ تعالٰی کی اطاعت کے معاملے میں کسی کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے:
اس آیت میں ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کفار کے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام غریبوں کو خود سے دور کردیں ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کی اطاعت میں کسی کی طرف سے ہونے والی باتوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس سے بے پرواہ ہو کر اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنا اور حق بات کو بیان کرنا چاہئے۔ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بطورِ خاص صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو اس بات کا حکم دیتے اور اس پر بیعت لیتے کہ وہ اللہ تعالٰی کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈریں گے نہ اس کی پرواہ کریں گے اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا یہ حال تھا کہ وہ اس عہد کی پاسداری میں اپنی جان تک چلی جانے کی بھی پرواہ نہ کیا کرتے تھے۔افسوس!فی زمانہ حق بات بیان کرنے کے حوالے سے مسلمانوں کا حال انتہائی نازک ہے،یہ اپنے سامنے اللہ تعالٰی اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانیاں ہوتی دیکھ کر، دین کا مذاق اڑتا ہوا اور شریعت کے احکامات پر عمل پیرا حضرات کی تذلیل ہوتی دیکھ کر،دینِ اسلام کے احکام اور اس کی تعلیمات پر انگلیاں اٹھتی دیکھ کر اتنی ہمت بھی نہیں کر پاتے کہ ایسے لوگوں کو زبان سے ہی روک دیں بلکہ الٹا ان کی ہاں میں ہاں ملاتے اور ان کی الٹی سیدھی اور جاہلانہ باتوں کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں عقل ِسلیم عطا فرمائے اور حق بات کہنے اور اس میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے،اٰمین۔
{نَذِیْرٌ: ڈر سنانے والا۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میری ذمہ داری تمہیں صحیح دلیل کے ساتھ صاف صاف ڈر سناناہے جس سے حق و باطل میں امتیاز ہوجائے، تو جو ایمان لائے وہی میرا مُقَرّب ہے اور جو ایمان نہ لائے وہی مجھ سے دور ہے۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۸۲۶، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۳ / ۳۹۱، ملتقطاً)
{قَالُوْا: بولے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے کہا :اے نوح ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اگر تم دعوت دینے اور ڈر سنانے سے باز نہ آئے تو ضرورتم سنگسار کئے جانے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۶ / ۲۹۳)