banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 129 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ(129)وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ(130)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(131)

ترجمہ: کنزالایمان اور مضبوط محل چنتے ہو اس امید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے۔ اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی سے گرفت کرتے ہو۔ تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور مضبوط محل بناتے ہو اس امید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے۔ اور جب کسی کو پکڑتے ہو تو بڑی بیدردی سے پکڑتے ہو۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ تَتَّخِذُوْنَ: اور بناتے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں  قومِ عاد کے دو اورمعمولات کے بارے میں  حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام ذکر ہوا، چنانچہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: ’’تم اس امید پر مضبوط محل بناتے ہو کہ تم ہمیشہ رہوگے اور کبھی مرو گے نہیں اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی کے ساتھ تلوار سے قتل کرکے اوردُرّے مار کرانتہائی بے رحمی سے گرفت کرتے ہو، تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور ان کاموں کو چھوڑ دو اور میں  تمہیں اللہ تعالٰی کی وحدانِیَّت پر ایمان لانے اور عدل و انصاف وغیرہ کی دعوت دے رہا ہوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔(خازن، الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۹-۱۳۱،۳ / ۳۹۲، روح البیان،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۹-۱۳۱،۶ / ۲۹۵-۲۹۶،ملتقطاً)

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مکانات کی سادگی:

اس آیت میں  قومِ عاد کے مضبوط محلات بنانے کا ذکر ہوا، فی زمانہ بھی لوگوں  کی عمومی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ انتہائی خوبصورت،مضبوط اور بڑا گھر بنائیں ۔جائز ذرائع اور حلال مال سے اس خواہش کو پورا کرنا اگرچہ جائز ہے لیکن اگر ضرورت کے مطابق مناسب ساگھر بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔دو جہاں  کے سردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے پیارے صحابۂ  کرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مکانات کی سادگی ملاحظہ ہو، چنانچہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجد ِنَبَوی کے متصل ہی اَزواجِ مطہرات  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے لئے مکانات بنوائے تھے۔ ان مکانات کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ صرف دس دس گز لمبے اور چھ چھ،سات سات گز چوڑے تھے، کچی اینٹوں  کی دیواریں ، کھجور کی پتیوں  کی چھت اوروہ بھی اتنی نیچی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو چھو لیتا، دروازوں  میں  لکڑی کے تختوں  کی بجائے کمبل یا ٹاٹ کے پردے پڑے رہتے تھے۔( شرح الزرقانی، ذکر بناء المسجد النبوی وعمل المنبر، ۲ / ۱۸۵، ملخصاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بھی مکانات کی شان و شوکت پسند نہ فرماتے اور اگر کوئی شاندار مکان تعمیر کرتا یا اپنے مکان کی تزئین و آرائش میں  مصروف ہوتا تو ا س کی تربیت فرماتے، چنانچہ ایک بار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک راستے سے گزرے، راستے میں  ایک اونچا سا گنبد (نما مکان) دیکھا تو فرمایا: ’’یہ کس کا ہے؟ لوگوں  نے ایک انصاری کا نام بتایا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ شان وشوکت ناگوار ہوئی، مگر اس کا اظہار نہیں  فرمایا، کچھ دیر کے بعد انصاری بزرگ آئے، اور سلام کیا، لیکن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رخِ انور پھیر لیا، باربار یہ واقعہ پیش آیا تو انہوں  نے دوسرے صحابہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضگی کاذکر کیا، جب سبب معلوم ہو ا تو انہوں  نے اس قبے کو گرا کر زمین کے برابر کردیا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی البناء، ۴ / ۴۶۰، الحدیث: ۵۲۳۷)

حضرت عبداللہ بن عمرو  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے پاس سے اس وقت گزرے جب میں  اور میری والدہ دیوار کی لپائی کر رہے تھے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اے عبداللہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، یہ کیا کر رہے ہو؟میں  نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ، میں  دیوار کو درست کر رہا ہوں ۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’موت ا س سے زیادہ قریب ہے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی البناء، ۴ / ۴۵۹، الحدیث: ۵۲۳۵)